Wednesday, 8 July 2015

کالاباغ ڈیم (حصہ پنجم) -- "تجزیہ " -- Kalabagh Dam (P V) Analysis

کالاباغ ڈیم (حصہ پنجم)   -- "تجزیہ "

 کالاباغ ڈیم کو سمجھنے کے لیے بلاگز کا سلسلہ 

کالاباغ ڈیم انڈس ریور کے اوپر ڈیزائن کیا گیا ہے جس کا پانی  1991 کے معاہدے کے تحت تمام صوبوں میں درج ذیل فارمولے کے تحت  تقسیم کیا گیا ہے ۔ تمام وسائل سے حاصل شدہ پانی میں پنجاب کے لیے 37 ٪ ، سندھ 37 ٪     ، خیبر پختونخوا  6 ٪ ، بلوچستان 7 ٪ ، کوٹری  ڈاؤن  سٹریم 5 ٪ اور  لائن لاسسز کے لیے  8 ٪  پانی مختص کیا گیا ہے ۔ 
عام تاثر یہ ہے کہ سیاستدانوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو سیاسی مسئلہ بنا دیا ہے۔ لیکن حالات و واقعات کے تجزیہ کریں تو کالا باغ سیاسی نہیں بلکہ خالصتاً تکنیکی مسئلہ ہے  لیکن غلط طریقے سے ہینڈل کیا گیا ہے۔ ذیل میں کالاباغ ڈیم کے معاملے کو الجھانے والے عناصر اور حل کی جانب پیش قدمی نہ ہونے کی وجوہات کا تجزیہ کیا گیا  ہے ۔
ڈیم مخالف  صوبے ( خیبر پختونخوا ، سندھ اور بلوچستان )
چھوٹے صوبوں کے رہنماؤں نے کالاباغ ڈیم کو زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا ہے ۔ عوامی نیشنل پارٹی شروع سے ہی کالا باغ ڈیم کی مخالف رہی ہے ۔ ولی خان نے دھمکی دی تھی کہ اگر یہ ڈیم بنایا گیا تو وہ بم سمیت اس میں کھود کر اس کو تباہ کردیں گے ۔ اسفندیار ولی کا کہنا تھا کہ کالاباغ ڈیم اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ خیبرپختونخوا کی موجودہ حکومت (تحریک انصاف ) اور دیگر سیاسی پارٹیاں بھی کالاباغ ڈیم کی مخالف ہیں ۔  ڈیم کی مخالفت اُس وقت شروع ہوئی جب  جنرل ضیاء الحق کے دور میں واپڈا نے ضلع نوشہرہ کے علاقوں خیرآباد ، اکوڑہ خٹک اور جہانگیرہ میں کالاباغ ڈیم کے نتیجے میں  آبادی کے انخلا کے لیے نشانات لگا دئے۔  اس پر خیبر پختونخوا کے عوام اور سیاستدانوں اور اُس وقت کے گورنر فضل حق نے کالاباغ ڈیم کی پُرزور مخالفت کی جس سے ڈیم کا منصوبہ تنازعہ کا شکار ہوا ۔ واضح رہے کہ موجودہ وقت میں خیبر پختونخوا میں جنوبی اضلاع کے بعض حصوں کو چھوڑ کر زرعی پانی کی کوئی شدید قلت نہیں ہے ، جس طرح باقی ملک میں ہے ۔ اگر کرم تنگی ڈیم (شمالی وزیرستان ایجنسی) تعمیر ہوجائے تو اس سے صوبے کے جنوبی اضلاع کے لیے بھی پانی مہیا ہوجائے گا۔
صوبہ سندھ نے کالاباغ منصوبے کی سب سے پہلے مخالفت کی اور اس  صوبہ کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے سخت خلاف ہیں ۔ سندھ کا نقطہ نظر  '( 1991  کے معاہدے کے باوجود  ) پنجاب کے ہاتھوں پانی کی چوری' کے نظریہ پر قائم ہے ۔  ماضی میں ذوالفقار علی  بھٹو نے دریائے سندھ سے چشمہ جہلم سے ایک نہر نکالنے کی منطوری دی جس کے تحت یہ نہر دریا میں تغیانی کے وقت (جولائی سے ستمبر تک ) پانی لے سکتی تھی ۔ 1984 میں پنجاب نے بغیر اجازت کے اس نہر کو جاری کردیا جس کے نتیجے میں صوبہ سندھ نے کالاباغ ڈیم منصوبے کے خاتمے کا مطالبہ شروع کیا ۔ سندھ کا اعتراض ہے کہ جب ڈیم میں پانی تمام صوبوں کے لیے ذخیرہ کیا جائے گا تو پانی کا بہاؤ صرف پنجاب کے لیے کیوں ہو؟ سندھ چاہتا ہے کہ کالاباغ کے منصوبے کو صرف بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جائے اور بجلی پیدا کرنے کے بعد پانی کا بہاؤ پھر دریا کی طرف کیا جائے جس سے تمام صوبوں کو ان کے حصے کا پانی پورا ملتا رہے گا ۔  عالمی قانون برائے تقسیم پانی کے مطابق کسی بھی دریا کے آخری حصہ پر موجود فریق کا یہ حق ہے کہ پانی کی ترسیل اس تک ممکن رہے ۔ اس وجہ سے صوبہ سندھ کی رضامندی کے بغیر اس ڈیم کی تعمیر ممکن نہیں ہے ۔
 بلو چستان کی قیادت کا کہنا ہے کہ اگر ملک کے تینوں صوبائی اسمبلیوں نے کالاباغ ڈیم کے خلاف قرار دادیں منظور کی ہیں تو پھر پنجاب زبر دستی اپنی مر ضی چھوٹوں صوبوں پر کیوں ٹھونسنا چاہتا ہے ۔
ڈیم کے حمایتی عناصر
پنجاب کے نا صرف سیاستدان (جو اصل میں  بڑے زمیندار اور صنعتکار ہیں ) ڈیم کی تعمیر کے  حق میں ہیں بلکہ وہاں سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما ( مثلاً سنی اتحاد کونسل ، جماعت اہل سنت ، انجمن طلبائے اسلام ، جمیعت علماء پاکستان   ) اور گجرانوالہ ، فیصل آباد و لاہور چیمبر جیسے ادارے بھی ڈیم کی حمایت میں کوشاں ہیں ۔ پنجاب کے لکھاری ڈیم کی تعمیر کے لیے کبھی چیف جسسٹس سے سوموٹو ایکشن تو کبھی  فوج کے سپہ سالار کی مداخلت  تو کبھی سیاسی رہنماؤں (جسے نواز شریف ، الطاف حیسن ، عمران خان ، پرویز مشرف ) کی طرف یکطرفہ التجائیں کر رہے ہیں۔ 
پنجاب میں کالاباغ ڈیم بنانے کی تحریک کو جہاد کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اسے پاکستان بچانے کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس فارمولے کے تحت جو لوگ کسی بھی وجہ سے ڈیم کے مخالف ہیں وہ پنجاب کی نظر میں غدار ، ملک دشمن ، ڈالروں کے عوض بھارت کے لیے کام کرنے والے اور زہریلے ذہنیت والے عناصر ہیں ۔ یہ گمراہ کن الزامات پنجاب کے نہ صرف دوسرے درجے کے لکھاری اور سیاستدان لگاتے ہیں بلکہ یہ وہاں کے بڑے اور مشہور اخبارات اور اسمبلی کے ممبران کی رائے بھی ہے  ۔ پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن پارلیمنٹ نے اسمبلی میں کہا  کہ جن صوبائی اسمبلیوں نے کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں قراردادیں منظور کی ہیں انہیں توڑ دینا چاہئے ۔ پنجاب اسمبلی میں انکشاف کیا گیا کہ ڈیم کی حمایت کرنے والوں کو قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔ دوسری طرف پنجاب کالاباغ کے علاوہ  پانی و بجلی کے دیگر منصوبوں کی تعمیر پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہے  ۔
آخر
اگرچہ ڈیم کے حامییوں کا دعویٰ ہے کہ اس ڈیم سے پورے ملک کو سستی بجلی اور  اضافی پانی فراہم ہوگا لیکن اس سے بھی زیادہ چاروں صوبوں میں اتفاق رائے اور یک جہتی ضروری ہے ۔ اگرچہ ظاہری طور سے یہ بات عیاں ہے کہ کالا باغ کی تعمیرکا مقصد دریائے سندھ کا پانی روکنانہیں ہے بلکہ اس کا مقصد بارشوں اور سیلاب کے پانی کو کالاباغ ڈیم میں جمع کر لینا ہے اور اس ڈیم سے پورے پاکستان کو پانی اضافی طور پر فراہم کیا جا سکے جس کی زیادہ تر مقداد بہہ جاتی ہے لیکن اعتماد کی کمی کے باعث رائے ہموار نہیں ہورہی ہے ۔
 بھارت مقبوضہ کشمیر سے آنے والے تمام دریاؤں اور ندی نالوں کا پانی روک کر ڈیم تعمیر کر رہا ہے ۔ لیکن دوسری طرف ہمارے حکمران  قلیل المدت سوچ رکھتے ہیں اور وہ ایسے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں جس سے  وہ   ذاتی فائدہ بھی اٹھائیں اور اگلے انتخابات میں ووٹ بھی حاصل کریں ۔ واضح رہے کہ ڈیم بنانا چھ سے دس سال کا پراجیکٹ ہوتا ہے اور اگر ڈیم کی تعمیر کے دوران انتخابات کے ذریعے دوسری پارٹی برسراقتدار آجائے تو ڈیم کا سیاسی فائدہ اُن کو مل سکتا ہے  ۔ آبی منصوبوں کا التواء قوم سے دھوکے کے مترادف ہے ۔
اگر کالاباغ اختلافات کا شکار ہے تو حکمرانوں کو  دوسرے ڈیم بنانے سے کس نے روکا ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکمرانوں کی ذہنی استعداد اور ویژن کم ہے ؟ ان کے گھروں کو تو بجلی پہنچتی ہے ، جنریٹروں کو قومی خزانے سے تیل ملتا ہے ، اور سب سے بڑھ کر یہ لوگ تو اپنا مستقل ٹھکانہ بیرون ملک کو سمجھتے ہیں یہاں تو وہ حکمرانی اور مال بٹورنے کے لیے بیٹھے ہیں اور جب خدانخواستہ حالات خراب ہوئے تو عوام کو اندھیروں میں چھوڑ کر خود بھاگ جائیں گے  ۔ جس قوم کے لوگ محلے میں ایک نالی بنوانے  پر ساری عمر ووٹ دیتے ہوں وہاں کے سیاستدانوں کی سوچ ڈیم بنانے کی طرف کیوں جائے گی ؟ دوسری بات یہ ہے کہ حکمرانوں کے سریا و سیمنٹ کے کارخانے نالی اور سڑکوں کی تعمیر کے لیے مال فراہم کررہے ہیں اور اُن کے کارخانوں کا منافع ابھی جاری ہے ۔ اگر ان کے کارخانے اس مقدار میں مال بنانا شروع کرے جس کے لیے ڈیم جیسے بڑے منصوبے کی ضرورت ہو تو شاید حکمران پھر ڈیم بنانے کی طرف متوجہ ہوں ۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم کا بننا صوبوں کی عدم تسلی اور حکمرانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ممکن ہی نہیں تو حکومتیں (اور کچھ دیگر عناصر ) کیوں ایک مردے گھوڑے کو زندہ کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت بعض مسائل اور امور سے فرار اختیار کرنے اور سیاسی سکور کرنے  کے لیے کالاباغ ڈیم کا سہارا لے رہی ہو ؟ اگر کالا باغ ڈیم کی تعمیر ممکن نہیں تو ایسی صورت میں عوام کو زمینی حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے متبادل ڈیموں پر کام کا آغاز کر دینا چاہئے ۔
جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ںوٹ : قارئین کرام کو اس تجزئے سے اختلاف اور اس میں تصحیح کی مکمل آزادی ہے ۔

1 comment: