Friday, 3 July 2015

کالاباغ ڈیم (حصہ چھارم) "صوبوں کا نقطہ نظر" -- "Kalabagh Dam (P IV) "Point of view of provinces

کالاباغ ڈیم (حصہ چھارم) "صوبوں  کا نقطہ نظر"

کالاباغ ڈیم کی تعمیر  سے حاصل ہونے فوائد کے باوجود پنجاب کے علاوہ ملک کے  تین صوبوں میں اس منصوبے سے متعلق عوامی رائے ہموار نہیں ہوسکی ہے جس کی وجہ سے کئی بار کی کوششوں کے باوجود اس ڈیم کی تعمیر پر اتفاق رائے نہیں ہو پایا ۔ بلاگ کے اس چوتھے حصے میں ڈیم  کے متعلق عمومی تحفظات اور صوبوں کا نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے ۔
منصوبے پر تکنیکی اعتراضات
بعض ماہرین کے مطابق دریائے سندھ میں پانی کا اوسط بہاؤ کالاباغ ڈیم کے لیے مطلوبہ مقدار سے کم ہے  جس کی وجہ سے ڈیم کے خشک رہنے کا  خدشہ  موجود رہے گا ۔ دوسری طرف  اگر افغان حکومت دریائے کابل پر بند باندھے تو اس سے  پاکستان میں دریائے کابل کے ذریعے آنے والے پانی کی مقدار کم ہوجائے گی جس کے نتیجے میں کالاباغ ڈیم کے لیے پہلے سے بھی کم پانی میسر ہوگا ۔  ماہرین کہتے ہیں کہ  کالاباغ ڈیم پر خرچ ہونے والی رقم اگر دریاؤں اور نہروں کی بہتری  پر خرچ کی جائے تو اس سے پانی کا ضیاع ختم ہوسکے گا اور ملک میں موجود پانی کی کمی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔
 دریائے کابل پشاور اور نوشہرہ سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے 
کالاباغ بند زلزلوں کے لحاظ سے انتہائی خطرناک خطے (فالٹ لائن) کے قریب  واقع ہے ۔  علاقے میں موجود زیرزمین دراڑین ذخیرہ کیے گئے پانی کو سمو  لیں گی اور دریا میں پانی کا بہاؤ کم ہوجائے گا ۔  اکتوبر 2005 کے شدید زلزلے کے بعد اس بات کا خوف بھی پیدا ہوا ہے  کہ زلزلے کی صورت میں خدانخواستہ ڈیم پھٹنے کا بھی خدشہ موجود رہے گا ۔ اسکے علاوہ پہلے سے تعمیرشدہ بندوں کے نتیجے میں جو انسانی اور ماحولیاتی مسائل پیدا ہوئے ہیں ابھی تک ان مسائل کو بھی پوری طرح  حل نہیں کیا گیا ہے ۔ کالاباغ ڈیم سالٹ رینج میں واقع ہے جس سے اس ڈیم کی ساخت کمزور ثابت ہوسکتی ہے ۔  کالاباغ بند میں جمع ہونے والی ریت کا مسئلہ ماحولیاتی مسائل میں اور بھی اضافہ کرگا ۔
حکومت پاکستان نے 2003 میں  پانی کے وسائل اور کالاباغ بند کے منصوبے کے تکنیکی فوائد و نقصانات کا جائزہ لینے لے لیے اے۔ این ۔ جی عباسی کی سربراہی میں ایک تکنیکی کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ اس کمیٹی نے دو سال بعد اپنی رپورٹ میں واضح طور پر رائے دی کی بھاشا اور کٹزرہ بند کی تعمیر جلد از جلد شروع  کرنی چاہئے  اور چونکہ  کالاباغ منصوبہ ملکی مفاد میں نہیں ہے لہٰذا اسے پس پشت ڈال دینا مفید ہوگا ۔
منصوبے پر عمومی تحفظات

اس منصوبے کے ماحول پر بھی کئی مضر اثرات لاحق  ہو سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ منصوبہ ایک بڑی آبادی کی ہجرت کا بھی سبب بنے گا  ۔ چونکہ ڈیم کے مخالفین نے حاصل ہونے والے فوائد کی نسبت اس کے نقصانات کو واضح طور پر اجاگر کیا ہے اس لیے کالاباغ بند کی تعمیر کی مخالفت اس حد تک ہوچکی ہے کہ اس سے ملک میں نقص امن اور وفاق سے علیحدگی کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے ۔ ماہرین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم کی سٹوریج کپیسیٹی میں سِلٹ (دریا یا جھیل کی تہہ میں مٹی اور ریت کا جمع ہونا -- Silt)  کیوجہ سے جو کمی واقع ہو چکی ہے وہ مجوزہ کالا باغ ڈیم کی سٹوریج کپیسیٹی کے برابر ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ صرف نئے آؤٹ لٹ تعمیر کرکے سلٹ کو فلش آؤٹ کیا جا سکتا ہے جس سے کالا باغ ڈیم کے برابر کپیسیٹی دستیاب ہو سکتی ہے اور نئے ڈیم کی تعمیر کے مقابلے میں آؤٹ  لٹس پر بہت کم خرچہ آئے گا ۔

نوٹ : کالاباغ ڈیم پر چند  اعتراضات بلاگ کے پچھلے ( یعنی تیسرے ) حصے میں بھی درج ہیں ۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر صوبوں کا نقطہ نظر
کالاباغ بند کی تعمیر کے منصوبے کو  پاکستان کے تین صوبوں خیبر پختونخوا ، سندھ اور بلوچستان سے اعتراضات کا سامنا ہے جبکہ  ڈیم کی تعمیر کے حق میں صرف صوبہ پنجاب ہے ۔ پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں نے مختلف ادوار میں  کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف متفقہ قراردادیں منظور کی ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں قومی اسمبلی بھی اس ڈیم کے خلاف قرارداد منظور کر چکی ہے ۔
خیبر پختونخوا کا نقطہ نظر
خیبر پختونخوا کے کالاباغ ڈیم پر اعتراضات عبدالولی خان نے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں اٹھائے تھے اور اُس وقت سے لیکر کالاباغ ڈیم کی مخالفت عوامی نیشنل پارٹی کی سیاست کا محور بن چکا ہے ۔  صوبہ خیبر پختونخوا کے کالاباغ بند پر دو بڑے اعتراضات ہیں ۔
1 ۔ خیبر پختونخوا کے وسطی اضلاع کے لیے خطرہ :  خیبر پختونخوا کی حکومت اور عوام کا سب سے بڑا اختلاف یہ ہے کہ اس ڈیم  کا ڈئیزائن نوشہرہ ، صوابی ، مردان ، چارسدہ  اور پشاور کے لئیے موزوں نہیں ہے اور ڈیم کے جھیل کی خطرناک حد تک زیادہ اونچائی سے خیبر پختونخوا کے کئی زرخیز زرعی اور شہری علاقے ڈوب سکتے ہیں ۔  کالاباغ بند کے ذخیرے کا  بیشتر حصہ خیبر پختونخوا میں واقعہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف نوشہرہ بلکہ گرد و نواح کا پورا علاقہ سیم و تھور کا شکار ، ریت جمع ہونے سے ایک بڑا علاقہ بنجر اور  ہمہ وقت سیلابوں و شہری علاقے کے زیر آپ آنے کا خطرہ موجود رہے گا  ۔ سیلاب کی صورت میں دریائے سندھ میں پانی کی بلندی کافی بڑھ جاتی ہے جس سے دریائے کابل میں پانی بیک پریشر کا شکار ہوکر اُلٹا بہے گا اور اضافی پانی لبریز  ہوکر نشیبی علاقوں میں چھلک کر سیلابی شکل اختیار کر سکتا  ہے ۔ 2010ء  کے سیلاب کی تباہ کاریوں نے ان خدشات کو سپورٹ کیا ہے ۔   یہ ڈیم دریائے کابل میں سلٹ بھرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔  کرک اور مضافاتی علاقوں میں پانی کھارا / نمکین ہو نے کا خطرہ ہو گا (کرک کے اکثر علاقوں میں پانی پہلے سے نمکین ہے ) ۔
دریائے سندھ اور دریائے کابل کا سنگھم 
2۔ ڈیم کی رائییلٹی : خیبر پختونخوا کا دوسرا بڑا اعتراض ڈیم کی رائیلٹی پر ہے ۔ ڈیزائن کے مطابق کالا باغ بند کا ذخیرہ تو خیبر پختونخوا میں واقع ہوگا جو صوبے کے لیے کئی مسائل کا سبب بنے گا  لیکن بجلی پیدا  کرنے والی ٹربائنیں خیبر پختونخوا کی حدود سے چند سو گز کے فاصلے پر صوبہ پنجاب کی حدود میں واقع ہوں گی جس کی وجہ سے ڈیم کی رائیلٹی کا حقدار  پنجاب تصور ہوگا ۔
 خیبر پختونخوا میں احتجاج میں ڈیم کے فائدے اور نقصانات کو واضح کیا گیا ہے 
خیبر پختونخوا میں نہ صرف نیشنل عوامی پارٹی ڈیم کی مخالف ہے بلکہ صوبے کی دوسری مقبول سیاسی پارٹیاں جیسے کے  پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان پیپلز پارٹی ، قومی وطن پارٹی اور عوامی جمہوری اتحاد کھل کر ڈیم کے خلاف ہیں ۔
سندھ کے اعتراضات
کالاباغ ڈیم پر سب سے زیادہ اور شدید اختلاف رائے صوبہ سندھ کا رہا ہے ۔ سندھ کے ڈیم بننے پر دو بڑے اعتراضات ہیں۔
1۔ دریائے سندھ میں زرعی پانی کی کمی : سندھ کی قیادت سمجھتی ہے کہ ڈیم بننے سے صوبہ سندھ کے حصے کا پانی کم ہوجائے گا جس کی وجہ سے سندھ کو پہلے سے کم پانی ملے گا ۔ ڈیزائن کے مطابق کالاباغ ڈیم میں ذخیرہ ہونے والا پانی نہروں کے ذریعے  پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرے گا  ۔ سندھ کا اعتراض ہے کہ جب پانی تمام صوبوں کے لیے ذخیرہ کیا جائے گا تو پانی کا بہاؤ صرف پنجاب کے لیے ہی کیوں ہو ؟
سندھی عوام کالاباغ ڈیم کے شدید خلاف ہیں  
2۔ دریائے سندھ میں سمندر کے لیے پانی کی کمی :سندھ کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ دریائے سندھ کا پانی کم ہونے سے ساحل سمندر کے قریب کا علاقہ سمندری پانی کی لپیٹ میں آ کر برباد ہو جائے گا کیونکہ سمندری پانی کو سمندر میں محدود رکھنے کیلئے دریائے سندھ میں ایک خاص مقدار کے پانی کا بہنا انتہائی ضروری ہے ۔ دریائے سندھ میں پانی کم بہنے سے سمندر کا کھارا پانی سندھ میں داخل ہوگا جس سے لوگوں میں بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ ہوگا اور نمکین پانی سے فصلوں کو نقصان  پہنچے گا ۔  زمین میں نمک کی شرح  بڑھنے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زمین کاشت کے قابل نہیں رہے گی   ۔ دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں کمی کی صورت میں ساحل سمندر پر موجود جنگلات ، زرعی زمین اور آبی حیات کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں جس کا منفی اثر ماحول پر بھی پڑے گا ۔ اس بند کی تعمیر صوبہ سندھ میں موجود جھیلوں میں پانی کی عدم دستیابی کا سبب بن کر منفی ماحولیاتی اثرات  اور آبی حیات کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے ۔ تربیلا اور منگلا ڈیم کی تعمیر سے صوبہ سندھ کو پہلے ہی پانی کی کمی کی شکایت ہے ۔
Mangrove Forest  سمندر کے نزدیک دریائے سندھ کے کنارے منگرو  کے جنگلات 
بلوچستان کے اعتراضات
جہاں تک بلو چستان کے تحفظات کا تعلق ہے تو انکا کہنا ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو اس سے بلو چستان کی پانی میں مزید کمی ہوگی کیوں کہ دریائے سندھ کی استعداد میں کمی آجائے گی جس کی وجہ سے بلو چستان کی مستقبل کی ضروریات پو را کر نے کے لئے پانی مہیا نہیں ہو گا۔ صوبہ سندھ    ،   بلوچستان کو پانی فراہم کرتا ہے اس لیے جب تک صوبہ سندھ  ڈیم کی تعمیر کے حق میں نہیں ہوگا تو بلوچستان بھی ڈیم کے حق میں کوئی فیصلہ نہیں سنا سکتا ہے ۔  اگرچہ بلوچستان کا صوبہ کالاباغ کی تعمیر سے براہراست متاثر نہیں ہوتا لیکن وہاں کے قوم پرست سردار اس منصوبے کو پنجاب کی چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی تصور کرتے ہیں ۔
پنجاب کا نقطہ نظر
پورے پاکستان میں پنجاب واحد صوبہ ہے جو ڈیم کی تمیر کے حق میں ہے۔ پنجاب کو ڈیم سے کئی ایک فائدے حاصل ہونگے جس کی وجہ سے وہاں کے سیاستدان  ڈیم بنانے کے لئے  سرتھوڑ کوششیں کر رہے ہیں ۔ ڈیم سے نہریں بنا کر پنجاب کے بہت سے علاقوں کو سیراب کیا جاسکے گا ۔ اس لیے ان زمینوں کے مالکین / وڈیرے (جو عموماً سیاستدان بھی ہیں ) ہر حالت میں ڈیم کی تعمیر چاہتے ہیں ۔ ڈیم سے بننے والی سستی بجلی موجودہ لوڈشیڈنگ کو کم کرنے میں مدد دے گی جس سے  پنجاب کے صنعتی شہروں میں کارخانے بھرپور طریقے سے چل پڑیں گے اور صنعتکاروں ( جو اسمبلی ممبران بھی ہیں ) کا منافع برقرار رہے گا ۔ کالاباغ ڈیم کے پانی کا ذخیرہ خیبر پختونخوا میں ہونے سے پنجاب کو ڈیم کی تعمیر سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا جب کہ ڈیم کے ٹربائن پنجاب میں نصب کرکے اوپر سے  ڈیم کی رائیلٹی بھی حاصل ہوگی ۔ ڈیم میں ذخیرہ شدہ پانی (چاہے وہ سیلابی اور اضافی ہو یا دریائے سندھ کا اپنا ) پر پنجاب کا کنٹرول ہوگا اور وہ اسے اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق استعمال میں لاسکے گا ۔ صوبہ پنجاب میں کالا باغ واحد علاقہ ہے جہاں بڑا ڈیم تعمیر ہوسکتا ہے لہٰذا پنجاب اپنے زرعی پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کالاباغ ڈیم کی پُرزور حمایت کرتا ہے ۔
دوسری طرف پنجاب کا دعویٰ ہے کہ پانی کی تقسیم کے فارمولے کے حساب سے پنجاب کا حصہ نہیں بڑھے  گا  بلکہ ڈیم کی تعمیر سے اُسے زمین اور جائیداد کا نقصان اٹھانا پڑے گا ۔
جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ 
نوٹ:  قارےئین کرام کو اس بلاگ میں درج شدہ وضاحتوں سے اختلاف ، اس میں تصحیح اور وضاحتوں پر اعتراض کی مکمل آزادی ہے ۔

No comments:

Post a Comment