Wednesday, 1 July 2015

کالاباغ ڈیم (حصہ سوم ) تکنیکی حقائق ۔۔ (Urdu ) Kalabagh Dam (P III) Technical Facts


         پہلا حصہ      کالاباغ ڈیم -- بنیادی تعارف                       دوسرا حصہ     تاریخی حقائق   
پاکستان میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر مشتمل دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام قائم  ہے ۔ اس نظام کے تحت سالانہ اوسط  145 ملین ایکڑ فٹ پانی  دستیاب ہوتا ہے جس میں سے 75 ملین ایکڑ فٹ پانی زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے ، 35 ملین ایکڑفٹ پانی بدانتظامی کا شکار  ہوتا ہے جبکہ بارشوں کے موسم میں مزید 35 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال میں لائے بغیر سمندر میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے ۔
کالاباغ ڈیم
کالاباغ ڈیم دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم   سے جنوب کی طرف دریا کے بہاؤ پر واقع ہے ۔  کالاباغ ڈیم کے ابتدائی سروے امریکی ماہرین نے 1956 اور 1967 میں کئے  جنہوں نے اس بند کو بہترین اور فائدہ مند قرار دیا ۔ واضح رہے کہ ابتدا میں اس منصوبے کا مقصد صرف زرعی مقاصد کے لیے  پانی ذخیرہ کرنا تھا۔ 1984 کی رپورٹ کے مطابق  کالاباغ ڈیم کی اونچائی 915 فٹ قرار پائی   اور ڈیم کی لمبائی 5 ہزار فٹ رکھی گئی ۔ ڈیم کی جھیل  52  ہزار مربع ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہوگی  ۔  ڈیم کے جھیل سے متاثرہ  رقبے  میں قابلِ کاشت  رقبہ  18  ہزار  ایکڑ ہے  جبکہ  باقی  34  ہزار  ایکڑ  بنجر  زمین  پر  جھیل مشتمل  ہوگی ۔  کالا باغ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 8 ملین ایکڑ فٹ ہوگی جبکہ قابل استعمال پانی کا ذخیرہ  6.1 ملین ایکڑ فٹ ہوگا ۔  بعض ماہرین کے مطابق دریائے سندھ میں اتنا وافر مقدار میں پانی موجود ہے کہ اس دریا پر 10 ڈیم بھی بنائے جاسکتے ہیں ۔  
 1984 کے اعداد شمار کے مطابق کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر لاگت کا  کُل  تخمینہ پانچ ارب ڈالر  لگا یا گیا تھا  مگر  اب  اس منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 9 ارب ڈالر لگایا گیا ہے ۔ ماہرین کے مطابق  یہ ڈیم اپنی لاگت 5 سال میں پوری کرسکے گا ۔ کالاباغ ڈیم پر اب تک کئی کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں ۔  یہ منصوبہ   6   سال کے قلیل عرصے میں مکمل ہوسکتا ہے ۔
کالاباغ ڈیم کے فوائد
یہ ڈیم  پاکستان کے  عوام کو درپیش دو بنیادی مسائل  یعنی توانائی (بجلی کی کمی ) اور آبپاشی کیلئے پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے ایک بہتر  اور پائیدار حل ہے ۔ اس کے علاوہ  کالاباغ ڈیم کی جھیل میں پانی جمع ہونے سے ماحول پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں اورموسمی ماہرین کے مطابق کچھ عرصہ بعد قریبی اضلاع کے درجہ حرارت میں کمی اور بارشوں میں اضافے  کا امکان ہے ۔ ڈیم کی تعمیر  کے  دوران  تقریباً 35 ہزار افراد کو روزگار کے مواقع میسر ہونے کے علاہ اس ڈیم سے کئی اور  اقتصادی فائدے بھی حاصل  ہونگے  ۔
 زرعی فائدے
کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے بلاشبہ نہری پانی میں اضافہ ہوگا ۔ ماہرین کے مطابق زراعت کے لیے پانی حاصل کرنے کے لیے کالاباغ ڈیم کی سائٹ بہترین ہے ۔  کالاباغ ڈیم سے نہروں کے ذریعے ان علاقوں تک پانی پہنچایا جاسکے گا جہاں بصورت دیگر زراعت کے لیے پانی پہنچانا مشکل ہے ۔  مزید یہ کہ پاکستان کے  دریاؤں کا جو 35 ملین ایکڑ فٹ پانی ہر سال سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا  ہے تو کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے ضائع ہونے والے پانی سے  6.1 ملین ایکڑ فٹ کی بچت کی جاسکتی ہے جس سے  کئی لاکھ ایکڑ بنجر زمین قابل کاشت بنائی جاسکتی ہیں ۔ کالاباغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے پاکستان کی 24 لاکھ ایکڑ زمین بنجر پڑی ہے ۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے جنوبی علاقے ، سندھ کے زیریں علاقے اور بلوچستان کے مشرقی حصے اس ڈیم کے پانی کی بدولت قابل کاشت بنائے جاسکتے ہے ۔ ڈیم میں تین سال کے لیے پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا ۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا تو براہراست اس منصوبے  مصتفید ہونگے کیونکہ یہ ڈیم ان دونوں صوبوں کے بیچ واقع ہے ۔ جبکہ سندھ اور بلوچستان کی طرف خود بہ خود دریا کے پانی کا بہاؤ بنتا ہے ۔
کالا باغ ڈیم سے خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع (کرک ، بنوں ، لکی مروت ، ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان) کو زرعی مقاصد کے لئے  مزید 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکے گا ۔ اس پانی سے جنوبی خیبر پختونخوا میں دریائے سندھ کی سطح سے بلندی پر واقع تقریباً 8 لاکھ ایکڑ زمین زیر کاشت آسکے گی ۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے سندھ کو بھی اضافی 40 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مہیا ہوگا ۔ سندھ میں خریف کی کاشت کے لیے پانی دستیاب ہوگا جس کی شدید قلت ہے ۔ سندھ کے ریگستانی علاقوں کی پیاس کالاباغ ڈیم سے بجھ سکے گی ۔ اس زرعی پانی سے سندھ کی 8 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہونے کے علاوہ سیم زدہ لاکھوں ایکڑ زمین قابل کاشت ہوجائے گی ۔ بلوچستان کو اس ڈیم سے 15 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکتا ہے جس سے مشرقی  بلوچستان کا تقیرباً 7 لاکھ ایکڑاضافی  رقبہ سیراب ہوسکے گا ۔ کالاباغ ڈیم سے پنجاب کو 22 لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی ملے گا جس سے جنوبی پنجاب کی 6 لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین زیر کاشت آئیگی ۔
مندرجہ بال حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات میں کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا کہ کالا باغ ڈیم جیسے فقید المثال منصوبہ سے ملک میں زرعی انقلاب آسکتا ہے ۔ اس ڈیم کی تعمیر سے ملکی زراعت کے علاوہ صنعت اور معیشت کو بھی فائدہ پہنچے گا ۔  1973 میں ورلڈ بینک کے ماہرین نے بھی  پاکستان کی آئندہ ترقی و خوشحالی کا دار و مدار کالاباغ ڈیم کو قرار دیا تھا ۔
بجلی کی پیداوار
زرعی مفادات کے علاوہ کالاباغ ڈیم سے 3600 میگاواٹ تک سستی بجلی حاصل کی جاسکے گی  جو ملک میں موجودہ   بجلی  کے شدید بحران کو کم کر سکتی ہے ۔ کالاباغ  ڈیم کی تعمیر سے تربیلا ڈیم  بھی بلا کسی خدشہ  کے پانی بہا کر بجلی پیدا کرسکے گا  اور یوں تربیلا ڈیم کی مکمل صلاحیت کے مطابق پیداوار جو پانی سمندر میں بہہ جانے  سے  بچانے کی وجہ سے کم  ہوتی ہے ، پوری ہوجائے گی ۔ تربیلا اور کالاباغ ڈیم کے مشترکہ عمل سے اضافی بجلی توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد لی جاسکے گی ۔

 اس کے علاوہ پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کی مد میں نقصان اٹھانے  سے چھٹکارا ملے گا ۔  اب واپڈا تھرمل بجلی گھروں سے مہنگی بجلی خرید کر  مختلف کمپنیوں کے ذریعے صارفین کو سستے داموں فروخت کررہا ہے ، لہٰذا یہ اخراجات اضافی سرچارجز (اور سبسڈی) سے پورے کئے جارہے ہیں ۔ یاد رہے کہ ڈیموں کی تعمیر سے پانی کے ذخائر کے ساتھ پیدا ہونے والی بجلی تھرمل بجلی کے مقابلے میں بہت سستی ہوتی ہے ۔
سیلاب سے بچاؤ
ڈیم کی تعمیر سے ہر سال چھوٹے پیمانے کے سیلاب سے ہونیوالی تباہی سے بھی نجات مل سکتی ہے جس (سیلاب) سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچتا ہے ۔ اس طرح کالاباغ ڈیم چند سالوں میں نہ صرف اپنی لاگت پوری کرسکتا ہے بلکہ جانی نقصان سے بچاؤ کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے ۔  عام طور پر سیلابی پانی کا بہاؤ آٹھ لاکھ کیوسک کے قریب ہوا کرتا  ہے  اور   کالا باغ ڈیم جھیل کے علاوہ دیگر متعدد چھوٹے ڈیموں کی تعمیر سے سیلابی پانی پر کافی حد تک قابو پایا جا نا بظاہر بعید از قیاس معلوم نہیں ہوتا ۔ اس کے علاوہ سیلابی پانی کو روک کر ذخیرہ کرنے سے پانی کا مثبت استعمال ہوسکے گا وگرنہ  ڈیم  نہ ہونے کی وجہ سے سیلابی پانی بغیر استعمال کئے بہہ کر سمندر میں گرجاتا ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ تربیلا اور منگلا ڈیم میں مٹی بھرنے کی وجہ سے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں  کمی آئی ہے  ۔
ڈیم کے نقصانات
اگرچہ کالا با غ ڈیم سے حاصل ہونے والے فوائد میں سیلاب سے بچاؤ ،  بجلی کی پیداوار اور زراعت کے لئے پانی کا ذخیرہ کرنا شامل ہیں ،لیکن ڈیم کی تعمیر سے ماحول پر پڑنے والے بعض مضر اثرات ،اس کے ذریعے ایک بڑی آبادی کی ممکنہ ہجرت ، زرعی زمینوں کا بنجر ہونا  اور ہزاروں ایکڑ مزید زمین  سیلاب  کی صورت میں متاثر ہوگی اور کئی دیہات زیر آب آیئنگے ۔ کالا باغ ڈیم سے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے 2 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہونگے ۔ ان لوگوں کی جان ، مال اور جائیداد کو محفوظ کرنے کی ضرورت پڑے گی ۔ مزیدبرآں ان بے گھر لوگوں کی نفسیاتی بحالی بھی کرنی پڑی گی۔ ان چھوٹے اور قابل تصحیح نقصانات کے علاوہ کالاباغ ڈیم زیرزمین زلزلوں کی پٹی پر واقع ہے اور خدا ناخواستہ شدید زلزے میں ڈیم کی ساخت کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ واپڈا اور الیکٹرک سپلا ئی کا رپوریشنیں قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئی ہیں اور  کرپشن  و لائن لاسز کی وجہ سے  نقصان میں مبتلاء ہیں اس لئے ہائیڈل پراجیکٹس سے سستی بجلی پیدا کرنے کے ثمرات صارفین تک منتقل ہونا مشکل بات ہے۔

کالاباغ ڈیم بارش کے اضافی پانی کو قابو کرکے پھر استعمال میں لانے کے لئے تو فائدہ مند رہے گا لیکن وسیع پیمانے پر  سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم کرنے میں برائے نام کارآمد رہے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان اور شمالی خیبر پختونخوا (ملاکنڈ اور ہزارہ) میں سیلاب کا نقصان پانی کے تیز بہاؤ (ڈھلوان زیادہ ہونے کی وجہ سے ) ہوتا ہے اور  سیلابی پانی کالاباغ کے مقام تک پہنچنے سے پہلے نقصان کرچکا ہوتا ہے ۔ لہٰذا ان علاقوں میں کالاباغ ڈیم کا سیلابی پانی  کو قابو کرنا عقل کے خلاف بات ہے ۔  دوسری طرف پنجاب کے دریا ( جہلم ، چناب ، راوی اور ستلج ) کالاباغ ڈیم سے جنوب کی طرف دریائے سندھ میں شامل ہوتے ہیں ۔ اب اگر ان دریاؤں میں پانی کا گزر کالاباغ کے مقام پر ہوتا ہی نہیں ہے تو  ڈیم ان دریاؤں میں آنے والے  سیلابی پانی پر کس طرح  اثر انداز ہوگا ؟ پنجاب کے دریاؤں میں یہی سیلابی پانی دریائے سندھ میں شامل ہوکر پھر مزید جنوب کی طرف پنجاب کے زیریں علاقوں اور صوبہ  سندھ میں سیلاب کا باعث بنتا ہے ۔
پنجاب کے دریا اور کالاباغ بند کا مجوزہ مقام

یہاں یہ بات  بھی قابل ذکر ہے کہ پو ری دنیا میں بڑے ڈیموں کی تعمیر کا رواج تقریباً ختم ہو رہا ہے ۔ چھوٹے اوردرمیانہ ڈیموں کی تعمیر پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ کیونکہ ایک تو یہ دفاعی نو عیت سے محفوظ ہوتے ہیں اور دوسری ما حول دوست ہوتے ہیں ۔ موجودہ وقت میں  عالمی ادارے ماحولیاتی بگاڑ، لوگوں کے بے گھر ہو نے اور قدرتی آفات  کی وجہ سے بڑے ڈیموں کے تعمیر کی سفارش نہیں کرتے اور بڑے ڈیموں کی بجائے چھوٹے اور در میانہ ڈیموں کی تعمیر اور متبادل ذرائع توانائی کی فروع پرخصوصی توجہ دیے رہے ہیں ۔
 (نوٹ : کالاباغ ڈیم پر صوبوں کے اعتراضاب بلاگ کے اگلے (یعنی چوتھے ) حصے میں تفصیل سے درج کئے گئے ہیں ۔)
حرف آخر
ماضی میں بین الاقوامی  ماہرین نے کئی بار کالاباغ کا مکمل سروے کرنے کے بعد  اس  ڈیم کی تعمیر کی سفارش کی  اور  اس ڈیم کی تعمیر کو پاکستان کے لیے بہت اہم قرار دیا ہے ۔  ایک بات طے ہے کہ قوم کی اکثریت کا مجموعی تاثر یہی ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ملکی معیشت ،صنعت اورزراعت کی ترقی کیلئے انتہائی ضروری ہے اور یہ تاثر کوئی بے بنیاد اور بلا جواز بھی نظر نہیں آتا ۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ  وجوہات   کون سی ہیں جس کی بنا پر  پاکستان کے تین چھوٹے صوبے اس ڈیم کی  شدید مخالفت کر رہے ہیں  اور  ان کی اس مخالفت کی وجہ سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر آج تک ممکن نہیں ہوسکی ہے ۔  صوبوں کے اعتراضات بلاگ کے چوتھے حصے میں درج کئے گئے ہیں۔
جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ 
اگلا حصہ  ڈیم کی تعمیر پر صوبوں کا نقطہ نظر                    پچھلا یعنی دوسرا حصہ --تاریخی حقائق
نوٹ : بلاگ میں درج شدہ اعداد و شمار مختلف ذرائع سے لیے گئے ہیں جو ماہرین کے اندازوں پر مشتمل ہیں لہٰذا یہ اعداد و شمار حتمی تصور نہ کئے جائیں ۔

No comments:

Post a Comment