Thursday, 16 July 2015

روئیت ہلال کا مسئلہ — سوال در سوال (Urdu) The issue of Moon Gazing -- core questions


روئیت ہلال کا مسئلہ — سوال در سوال

پاکستان میں ہرسال کی طرح اس دفعہ بھی رمضان المبارک اور عیدالفطر کے چاند نظر آنے کے اعلانات پر اتفاق نہیں ہوسکا  اور خیبر پختونخوا کے اکثر علاقوں میں باقی ملک سے  ایک دن پہلے رمضان اور عید کا اعلان ہوا ۔ اس بلاگ میں علماء کرام کی جانب سے  اس نااتفاقی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں ۔ اگرچہ  راقم نے اپنی طرف سے ان غیر علمی سوالات کے جوابات تحریر کئے ہیں مگر آپ موازنہ کریں کہ آپ  خود ان سوالات کے جوابات کن الفاظ میں دینگے ۔


س ۔ روئیت ہلال کمیٹی کب قائم کی  گئی ہے ؟

ج ۔ انگریزوں سے آزادی کے اگلے سال 1948 میں مرکزی روئیت ہلال کمیٹی قائم کی گئی (یاد رہے کہ 1947 میں پاکستان کی  آزادی کے صرف تین دن بعد عیدالفطر تھی ) ۔ یہ کمیٹی ضلعی کمیٹیوں سے شہادتیں  اور محکمہ موسمیات سے ماہرانہ رائے لیتی ۔ 1958 میں پہلی مرتبہ ا ہل پشاور نے باقی ملک سے پہلے ایک روز پہلے روزہ رکھ کر عید بھی پہلے منائی ۔ فوجی آمر ایوب خان نے 1961 ، 1966 اور 1967 میں مرکزی کمیٹی کے اعلانات کے برعکس ایک دن پہلے عید کا اعلان کیا ۔ حکومت کے ان بے بنیاد فیصلوں سے عوام (خاص کر کراچی کے شہریوں ) نے اتفاق نہیں کیا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ 1971 تک مشرقی پاکستان کی شہادت پورے ملک کے لیے تسلیم کی جاتی تھی لیکن اب بنگلہ دیش میں عید کا اعلان ہمارے لیے  معتبر نہیں ہے ۔
یہ نصف صدی کا قصہ ہے ، دو چار برس کی بات نہیں
 1958  روزنامہ جنگ 
مسئلے کے پائیدار حل کے لیے بھٹو حکومت نے جنوری 1974 میں قومی اسمبلی کے ایکٹ کے تحت 9 ارکان (بمع ایک خاتوں رکن ) پر مشتمل مرکزی کمیٹی قائم کی ۔ چاروں صوبوں میں بھی مقامی کمیٹیاں قائم ہوئیں ۔ قانون میں مزید کہا گیا  کہ کمیٹی کے ممبران اور چئرمین کی مدت عرصہ تین سال  ہوگی اور وہ بھی صرف ایک بار کے لیے ۔ لیکن مفتی منیب صاحب پچھلے 18 سال سے کمیٹی میں موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ کمیٹی کے ممبران  کی تعداد بھی غیر قانونی طریقے سے بڑھا کر  15 کردی گئی ہے ۔
مفتی منیب الرحمان صاحب 1997 میں کمیٹی کے رکن بنے ۔ 1999 میں خیبر پختونخوا سے کمیٹی کے رکن نے  اجلاس سے واک آؤٹ کرتے ہوئے مفتی منیب اور اُس وقت کے چئیرمین پر  الزام لگایا  کہ یہ دونوں خیبر پختونخوا کی شہادتوں کو تسلیم نہیں کرتے ۔
پرویز مشرف نے قانون کو روندتے ہوئے 2001 میں مفتی منیب کو کمیٹی کا چئیرمین بنایا ۔  کمیٹی کے ارکان کے آپس میں  مسلکی اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے موصولہ شہادتوں پر اتفاق قائم کرنا ایک مشکل عمل بن چکا ہے  ۔ یہی وجہ ہے کہ   کمیٹی کا اجلاس ایک رسمی کاروائی بن گئی ہے کیونکہ  چاند کی روئیت کے اعلان کے لیے کمیٹی شہادت کی بجائے محمکہ موسمیات کے اعداد و شمار پر انحصار کرتی ہے ۔ واضح رہے کہ پچھلے 15 سال میں صرف دو دفعہ پورے ملک میں ایک ساتھ عید منائی گئی ہے ۔
غیر مؤثر کردار کی وجہ ملک کے بیشتر علماء ،  سیاسی رہنما اور دانشور و صحافی مرکزی کمیٹی کو ایک سیاسی رشوت سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کو ختم کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں ۔ دوسری طرف مسجد قاسم علی خان ( پشاور ) کا دعویٰ ہے کہ ان کے بزرگ و اکابر 1825 سے چاند کی روئیت کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں ۔ 

س ۔  کیا پورے  ملک  میں  ایک  دن  عید منایا جاسکتا ہے ؟

 رمضان ، محرم اور عیدین کے مواقع پر چاند کی روئیت عوام کے لیے اہمیت اختیار کر جاتی  ہے ۔   بدقسمتی سے مرکزی رویئت ہلال کمیٹی قمری مہینے کا اعلان پورے ملک کے لیے  اتفاق سے کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے اور پشاور میں قائم مقامی روئیت ہلال کمیٹی عموماً
ایک دن پہلے ہی چاند نظر آنے کا اعلان کردیتی ہے ۔ اگر مرکزی کمیٹی اپنے بنیادی مقاصد کے حصول میں سالہاسال سے ناکام رہی ہے تو پھر ایسی کمیٹی کو برقرار رکھنا اور ملکی خزانے پر بوجھ ڈالنے کا کیا فائدہ ہے ؟

مفتی شہاب الدین پوپلزئی ۔ مسجد قاسم علی خان پشاور

س ۔ کمیٹی کے چئیرمین کون ہیں ؟

ج ۔ کمیٹی کے چئیرمین جناب مفتی منیب الرحمان صاحب ہیں ۔ موصوف کو فوجی آمر پرویز مشرف نے اس عہدے پر 2001 میں  تعینات کیا تھا ۔ اس دوران ملک کے چار صدور اور پروزیز مشرف کے علاوہ سات وزرائے اعظم حکمران بنے ہیں ۔ مشرف کے بعد دو مکمل جمہوری حکومتیں بھی آئیں لیکن آپ کو عہدے سے نہیں ہٹایا گیا ۔ پانچ سال پہلے اٹھارویں ترمیم منظور کرتے ہوئے مشرف کے تمام احکامات غیر آئینی قرار دئے گئے مگر مفتی منیب ( اور گورنر سندھ عشرت العباد ) اپنے عہدے پر تاحال براجمان ہیں ۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب ایک شخص مسلسل کسی عہدے پر فرائض سرانجام دیتا رہے تو اس سے  اس شخص کی اور ادارے کی  کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے ۔

مرکزی روئیت ہلال کمیٹی کے چئیرمین جناب مفتی منیب الرحمان ،  آپ 15 سال سے غیر قانونی طور سے اس عہدے پر موجود ہیں ۔

س ۔ کیا کبھی کمیٹی کے ارکان نے خود چاند دیکھا ہے ؟

ج ۔ نہیں ۔ تو پھر کیوں کثیر تعداد میں عمر رسیدہ  کمیٹی کے ممبران کو ہر بار ملک کے مختلف حصوں میں کسی اونچی عمارت کے اوپر دوربین لگا کر  ٹی وی کیمرے کے سامنے  چاند دیکھنے کی لا حاصل سعی  کرائی  جاتی ہے ۔ اجلاس میں موجود صحافی بتاتے ہیں کہ ارکان صرف تصویر بنانے کی حد تک چاند دیکھنے کے لئے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں ۔  کیا یہ قوم سے ایک مذاق نہیں ہے ؟
مرکزی روئیت ہلال کمیٹی کے اراکین 

س ۔ کیا پشاور میں بغیر شہادت کے رمضان / عیدین کا  اعلان ہوتا ہے ؟

ج ۔ ںہیں ۔ بلکہ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں سے شہادتیں موصول ہونے کے بعد اعلان ہوتا ہے ۔ تو پھر مرکزی کمیٹی کو یہ شہادتیں کیوں منظور نہیں ہوتیں ؟ مرکزی کمیٹی ایک گھنٹے کے اندر کیوں اجلاس ختم کرنے کا اعلان کردیتی ہے  ۔ یہ جانتے ہوئے کہ شہادت دینے کے کئی وقت طلب احکامات ہیں اور دور دراز پہاڑی علاقوں سے شہادت پہنچنے پر وقت لگتا ہے ؟ مزید یہ کہ پچھلے کئی سالوں سے مرکزی روئیت ہلال کمیٹی کا اجلاس پشاور میں منعقد نہیں ہوسکا ہے ۔ اس نااتفاقی نے پہلے سے بکھری ہوئی  قوم کو ایک نئے اور اضافی نقطہ نظر سے تقسیم کردیا ہے ۔

س ۔ چاند کب نظر آتا ہے ؟

ج ۔ پہلے دن کا چاند جسے ہلال کہا جاتا ہے ،  بہت باریک ہوتا ہے اس لیے ہر کسی کو (نظر کی کمزوری کی بنا پر ) نظر نہیں آتا ہے ۔ اس طرح یہ چاند ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہر جگہ سے بھی نظر نہیں آسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چاند دیکھنے کی گواہی دینے والے اور گواہی لینے والے کے لئے کڑی شرائظ رکھی گئیں ہیں ۔ مگر مرکزی رویئت ہلال کمیٹی جس دن چاند نظر آنے کا اعلان کرتی ہے اس دن چاند اتنا بڑا ہوتا ہے کہ ہر کسی کو ہر جگہ سے  نظر آتا ہے (بلکہ ٹی وی کیمرے پر بھی دکھایا جاتا ہے ) ۔ اگر اسی چاند کو پہلے دن کا چاند مان لیا جائے تو پھر شہادت کے سلسلے میں اتنے سخت احکامات کیوں ہیں اور پھر ہر کسی کو نظر آنے والے چاند کے لیے خصوصی کمیٹی کی کیا ضرورت ہے ؟
پہلے دن کے چاند کو ٹی کیمرہ دکھاتے ہوئے 

س ۔ پشاور کا اعلان کیوں مشکوک ہے ؟

ج ۔ محکمہ موسمیات کی واضح پیشن گوئی اور  اعلانات کے باوجود پشاور کی کیمٹی چاند نظر آنے کا اعلان کردیتی ہے ۔ اس جدید سائنسی دور میں ماہرین فلکیات کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ  مرکزی کمیٹی محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی کو بہت اہمیت دیتی ہے ۔  اگر چاند نظر آنے کے لیے سائنس پر انحصار کرنا ہے ( اور کرنا بھی چاہئیے ) تو پھر قمری مہینے کے اعلان کا کام محکمہ موسمیات کے سپرد کرکے مرکزی کمیٹی کو ختم کرنا چاہئے ۔ قومی یک جہتی بھی قائم رہے گی اور قومی خزانے پر بوجھ بھی کم ہوجائے گا ۔

س ۔ کیا حکومت نے دوسرے مذہبی معاملات کے لیے بھی علماء پر مشتمل کمیٹیاں قائم کیں ہیں ؟

ج ۔ نہیں ۔ حکومت دوسرے مذہبی امور ( جیسے حج اور زکواۃ کی وصولی اور تقسیم وغیرہ ) اپنے قوانین اور طور طریقے سے کراتی ہے ۔ تو پھر یہ معاملہ بھی کسی سرکاری افسر کے سپرد کرنا چاہئے جو ماہرین فلکیات کی تجاویز کی روشنی میں  سرکاری حکم نامے کی صورت میں رمضان / عید کا اعلان کیا کرے ۔

س ۔ کیا پشاور کی کمیٹی عیدالاضحیٰ کا اعلان بھی باقی ملک سے ایک روز پہلے کرتی ہے ؟

ج ۔ نہیں ۔ پچھلے چند سال سے سارا تنازعہ رمضان اور شوال (عیدالفطر) کے اعلان پر ہے ۔ جبکہ مفتی شہاب الدین پوپلزئ صاحب  ذوالحج ( عیدالاضحیٰ ) کا اعلان مرکزی کمیٹی کے ساتھ کرتے ہیں۔ شاید مفتی صاحب کم از کم اسلامی سال کا آغاز اتفاق سے کرنا چاہتے ہیں جس کا آغاز محرم سے ہوتا ہے ۔

س ۔ اتنے بڑے عوامی مسئلے پر حکومت کیوں خاموش ہے ؟

ج ۔ شاید مختلف حکومتیں  نااہلی کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہیں کرسکیں ہیں یا حکمران چاہتے ہیں کہ عوام کسی معاشرتی  مسئلے میں اُلجھی رہے اور حکمران بلا کسی تعطل کے لوٹ مار جاری رکھ سکیں ۔

تجاویز :

مرکزی اور پشاور میں موجود مقامی روئیت ہلال کمیٹیوں کے علماء کرام کو چاہئے کہ آپس کے اختلافات ایک طرف رکھ کر اس مسئلے پر یک جہتی قائم کریں اور پہلے سے فرقہ ورانہ اور مسلکی بنیادوں پر تقسیم مسلمانوں کو مزید علاقائی سطح پر تقسیم نہ کیا جائے ۔ اگر یہ علماء خود سے آپس میں اتفاق نہیں کرتے تو پھر حکومت یا کوئی  دوسرا پریشر گروپ یا عوام ان پر دباؤ ڈالیں کہ یہ لوگ اختلافات ختم کردیں ۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر قمری مہینے کے آغاز کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرایا جاسکتا ہے ۔

1 ۔ مرکزی روئیت ہلال کمیٹی پورے ملک سے بلا کسی امتیاز کے شہادتیں وصول کرے اور اعلان کرتے ہٓوئے کمیٹی  کسی سیاسی یا فرقہ ورانہ دباؤ یا مصالحت  کا شکار نہ ہو ۔

2۔ چاند نظر آنے کا کام محکمہ موسمیات کے سپرد کیا جائے ۔ محکمہ موسمیات سائنسی آلات اور علم فلکیات کی روشنی میں قمری مہینے کے آغاز کا مستند فیصلہ کرسکتی ہے ۔ اس سے نہ صرف روئیت ہلال کا دیرینہ مسئلہ حل ہوگا بلکہ ملکی خزانے پر بوجھ بھی کم ہوگا ۔
جدید آلات کا استعمال زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں ہے 

3۔ قمری سال اور مہینوں کا حساب کتاب سعودی عرب سے منسلک کیا جائے ۔ چونکہ سعودی عرب میں امور ریاست کے لیے بھی قمری سال استعمال کیا جاتا ہے   یہی  وجہ ہے کہ وہ لوگ چاند کی روئیت کا خاص اہتمام کرتے ہیں ۔ قمری مہینے کا اعلان سعودی عرب سے منسلک کرکے ہم ہجری سال سے متعلق نہ صرف قومی سطح پر  بلکہ  دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ یکجا ہوسکتے ہیں ۔

4 ۔ اگر مندرجہ بالا تجاویز میں کسی پر بھی عمال کرنا کسی بھی وجہ سے ناقابل عمل ہو تو پھر مرکزی کمیٹی کو تھوڑا جائے اور یہ کام مقامی کمٹیوں کے سپرد کیا جائے تو ہر علاقہ اپنی کمیٹی کے اعلان سے عید منائے گا ۔ ویسے بھی حکومت نے اس دفعہ عید پر پانچ چھٹیوں کا اعلان کیا ہے اور مختلف علاقوں کے  عوام کے پاس کئی عیدوں سے لطف اندوذ ہونے کا بہت سارا وقت دستیاب ہے  ۔

Mufti Abdul Qawi--Member Central Ruet-e-Hilal Committee 


نوٹ : قارئین کرام کو اس بحث سے اختلاف ، اس میں تصحیح اور اضافے کی مکمل آزادی ہے ۔  






روئیت ہلال کا مسئلہ — سوال در سوال (Urdu) The issue of Moon Gazing -- core questions


روئیت ہلال کا مسئلہ — سوال در سوال

پاکستان میں ہرسال کی طرح اس دفعہ بھی رمضان المبارک اور عیدالفطر کے چاند نظر آنے کے اعلانات پر اتفاق نہیں ہوسکا  اور خیبر پختونخوا کے اکثر علاقوں میں باقی ملک سے  ایک دن پہلے رمضان اور عید کا اعلان ہوا ۔ اس بلاگ میں علماء کرام کی جانب سے  اس نااتفاقی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں ۔ اگرچہ  راقم نے اپنی طرف سے ان غیر علمی سوالات کے جوابات تحریر کئے ہیں مگر آپ موازنہ کریں کہ آپ  خود ان سوالات کے جوابات کن الفاظ میں دینگے ۔


س ۔ روئیت ہلال کمیٹی کب قائم کی  گئی ہے ؟

ج ۔ انگریزوں سے آزادی کے اگلے سال 1948 میں مرکزی روئیت ہلال کمیٹی قائم کی گئی (یاد رہے کہ 1947 میں پاکستان کی  آزادی کے صرف تین دن بعد عیدالفطر تھی ) ۔ یہ کمیٹی ضلعی کمیٹیوں سے شہادتیں  اور محکمہ موسمیات سے ماہرانہ رائے لیتی ۔ 1958 میں پہلی مرتبہ ا ہل پشاور نے باقی ملک سے پہلے ایک روز پہلے روزہ رکھ کر عید بھی پہلے منائی ۔ فوجی آمر ایوب خان نے 1961 ، 1966 اور 1967 میں مرکزی کمیٹی کے اعلانات کے برعکس ایک دن پہلے عید کا اعلان کیا ۔ حکومت کے ان بے بنیاد فیصلوں سے عوام (خاص کر کراچی کے شہریوں ) نے اتفاق نہیں کیا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ 1971 تک مشرقی پاکستان کی شہادت پورے ملک کے لیے تسلیم کی جاتی تھی لیکن اب بنگلہ دیش میں عید کا اعلان ہمارے لیے  معتبر نہیں ہے ۔
یہ نصف صدی کا قصہ ہے ، دو چار برس کی بات نہیں
 1958  روزنامہ جنگ 
مسئلے کے پائیدار حل کے لیے بھٹو حکومت نے جنوری 1974 میں قومی اسمبلی کے ایکٹ کے تحت 9 ارکان (بمع ایک خاتوں رکن ) پر مشتمل مرکزی کمیٹی قائم کی ۔ چاروں صوبوں میں بھی مقامی کمیٹیاں قائم ہوئیں ۔ قانون میں مزید کہا گیا  کہ کمیٹی کے ممبران اور چئرمین کی مدت عرصہ تین سال  ہوگی اور وہ بھی صرف ایک بار کے لیے ۔ لیکن مفتی منیب صاحب پچھلے 18 سال سے کمیٹی میں موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ کمیٹی کے ممبران  کی تعداد بھی غیر قانونی طریقے سے بڑھا کر  15 کردی گئی ہے ۔
مفتی منیب الرحمان صاحب 1997 میں کمیٹی کے رکن بنے ۔ 1999 میں خیبر پختونخوا سے کمیٹی کے رکن نے  اجلاس سے واک آؤٹ کرتے ہوئے مفتی منیب اور اُس وقت کے چئیرمین پر  الزام لگایا  کہ یہ دونوں خیبر پختونخوا کی شہادتوں کو تسلیم نہیں کرتے ۔
پرویز مشرف نے قانون کو روندتے ہوئے 2001 میں مفتی منیب کو کمیٹی کا چئیرمین بنایا ۔  کمیٹی کے ارکان کے آپس میں  مسلکی اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے موصولہ شہادتوں پر اتفاق قائم کرنا ایک مشکل عمل بن چکا ہے  ۔ یہی وجہ ہے کہ   کمیٹی کا اجلاس ایک رسمی کاروائی بن گئی ہے کیونکہ  چاند کی روئیت کے اعلان کے لیے کمیٹی شہادت کی بجائے محمکہ موسمیات کے اعداد و شمار پر انحصار کرتی ہے ۔ واضح رہے کہ پچھلے 15 سال میں صرف دو دفعہ پورے ملک میں ایک ساتھ عید منائی گئی ہے ۔
غیر مؤثر کردار کی وجہ ملک کے بیشتر علماء ،  سیاسی رہنما اور دانشور و صحافی مرکزی کمیٹی کو ایک سیاسی رشوت سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کو ختم کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں ۔ دوسری طرف مسجد قاسم علی خان ( پشاور ) کا دعویٰ ہے کہ ان کے بزرگ و اکابر 1825 سے چاند کی روئیت کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں ۔ 

س ۔  کیا پورے  ملک  میں  ایک  دن  عید منایا جاسکتا ہے ؟

 رمضان ، محرم اور عیدین کے مواقع پر چاند کی روئیت عوام کے لیے اہمیت اختیار کر جاتی  ہے ۔   بدقسمتی سے مرکزی رویئت ہلال کمیٹی قمری مہینے کا اعلان پورے ملک کے لیے  اتفاق سے کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے اور پشاور میں قائم مقامی روئیت ہلال کمیٹی عموماً
ایک دن پہلے ہی چاند نظر آنے کا اعلان کردیتی ہے ۔ اگر مرکزی کمیٹی اپنے بنیادی مقاصد کے حصول میں سالہاسال سے ناکام رہی ہے تو پھر ایسی کمیٹی کو برقرار رکھنا اور ملکی خزانے پر بوجھ ڈالنے کا کیا فائدہ ہے ؟

مفتی شہاب الدین پوپلزئی ۔ مسجد قاسم علی خان پشاور

س ۔ کمیٹی کے چئیرمین کون ہیں ؟

ج ۔ کمیٹی کے چئیرمین جناب مفتی منیب الرحمان صاحب ہیں ۔ موصوف کو فوجی آمر پرویز مشرف نے اس عہدے پر 2001 میں  تعینات کیا تھا ۔ اس دوران ملک کے چار صدور اور پروزیز مشرف کے علاوہ سات وزرائے اعظم حکمران بنے ہیں ۔ مشرف کے بعد دو مکمل جمہوری حکومتیں بھی آئیں لیکن آپ کو عہدے سے نہیں ہٹایا گیا ۔ پانچ سال پہلے اٹھارویں ترمیم منظور کرتے ہوئے مشرف کے تمام احکامات غیر آئینی قرار دئے گئے مگر مفتی منیب ( اور گورنر سندھ عشرت العباد ) اپنے عہدے پر تاحال براجمان ہیں ۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب ایک شخص مسلسل کسی عہدے پر فرائض سرانجام دیتا رہے تو اس سے  اس شخص کی اور ادارے کی  کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے ۔

مرکزی روئیت ہلال کمیٹی کے چئیرمین جناب مفتی منیب الرحمان ،  آپ 15 سال سے غیر قانونی طور سے اس عہدے پر موجود ہیں ۔

س ۔ کیا کبھی کمیٹی کے ارکان نے خود چاند دیکھا ہے ؟

ج ۔ نہیں ۔ تو پھر کیوں کثیر تعداد میں عمر رسیدہ  کمیٹی کے ممبران کو ہر بار ملک کے مختلف حصوں میں کسی اونچی عمارت کے اوپر دوربین لگا کر  ٹی وی کیمرے کے سامنے  چاند دیکھنے کی لا حاصل سعی  کرائی  جاتی ہے ۔ اجلاس میں موجود صحافی بتاتے ہیں کہ ارکان صرف تصویر بنانے کی حد تک چاند دیکھنے کے لئے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں ۔  کیا یہ قوم سے ایک مذاق نہیں ہے ؟
مرکزی روئیت ہلال کمیٹی کے اراکین 

س ۔ کیا پشاور میں بغیر شہادت کے رمضان / عیدین کا  اعلان ہوتا ہے ؟

ج ۔ ںہیں ۔ بلکہ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں سے شہادتیں موصول ہونے کے بعد اعلان ہوتا ہے ۔ تو پھر مرکزی کمیٹی کو یہ شہادتیں کیوں منظور نہیں ہوتیں ؟ مرکزی کمیٹی ایک گھنٹے کے اندر کیوں اجلاس ختم کرنے کا اعلان کردیتی ہے  ۔ یہ جانتے ہوئے کہ شہادت دینے کے کئی وقت طلب احکامات ہیں اور دور دراز پہاڑی علاقوں سے شہادت پہنچنے پر وقت لگتا ہے ؟ مزید یہ کہ پچھلے کئی سالوں سے مرکزی روئیت ہلال کمیٹی کا اجلاس پشاور میں منعقد نہیں ہوسکا ہے ۔ اس نااتفاقی نے پہلے سے بکھری ہوئی  قوم کو ایک نئے اور اضافی نقطہ نظر سے تقسیم کردیا ہے ۔

س ۔ چاند کب نظر آتا ہے ؟

ج ۔ پہلے دن کا چاند جسے ہلال کہا جاتا ہے ،  بہت باریک ہوتا ہے اس لیے ہر کسی کو (نظر کی کمزوری کی بنا پر ) نظر نہیں آتا ہے ۔ اس طرح یہ چاند ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہر جگہ سے بھی نظر نہیں آسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چاند دیکھنے کی گواہی دینے والے اور گواہی لینے والے کے لئے کڑی شرائظ رکھی گئیں ہیں ۔ مگر مرکزی رویئت ہلال کمیٹی جس دن چاند نظر آنے کا اعلان کرتی ہے اس دن چاند اتنا بڑا ہوتا ہے کہ ہر کسی کو ہر جگہ سے  نظر آتا ہے (بلکہ ٹی وی کیمرے پر بھی دکھایا جاتا ہے ) ۔ اگر اسی چاند کو پہلے دن کا چاند مان لیا جائے تو پھر شہادت کے سلسلے میں اتنے سخت احکامات کیوں ہیں اور پھر ہر کسی کو نظر آنے والے چاند کے لیے خصوصی کمیٹی کی کیا ضرورت ہے ؟
پہلے دن کے چاند کو ٹی کیمرہ دکھاتے ہوئے 

س ۔ پشاور کا اعلان کیوں مشکوک ہے ؟

ج ۔ محکمہ موسمیات کی واضح پیشن گوئی اور  اعلانات کے باوجود پشاور کی کیمٹی چاند نظر آنے کا اعلان کردیتی ہے ۔ اس جدید سائنسی دور میں ماہرین فلکیات کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ  مرکزی کمیٹی محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی کو بہت اہمیت دیتی ہے ۔  اگر چاند نظر آنے کے لیے سائنس پر انحصار کرنا ہے ( اور کرنا بھی چاہئیے ) تو پھر قمری مہینے کے اعلان کا کام محکمہ موسمیات کے سپرد کرکے مرکزی کمیٹی کو ختم کرنا چاہئے ۔ قومی یک جہتی بھی قائم رہے گی اور قومی خزانے پر بوجھ بھی کم ہوجائے گا ۔

س ۔ کیا حکومت نے دوسرے مذہبی معاملات کے لیے بھی علماء پر مشتمل کمیٹیاں قائم کیں ہیں ؟

ج ۔ نہیں ۔ حکومت دوسرے مذہبی امور ( جیسے حج اور زکواۃ کی وصولی اور تقسیم وغیرہ ) اپنے قوانین اور طور طریقے سے کراتی ہے ۔ تو پھر یہ معاملہ بھی کسی سرکاری افسر کے سپرد کرنا چاہئے جو ماہرین فلکیات کی تجاویز کی روشنی میں  سرکاری حکم نامے کی صورت میں رمضان / عید کا اعلان کیا کرے ۔

س ۔ کیا پشاور کی کمیٹی عیدالاضحیٰ کا اعلان بھی باقی ملک سے ایک روز پہلے کرتی ہے ؟

ج ۔ نہیں ۔ پچھلے چند سال سے سارا تنازعہ رمضان اور شوال (عیدالفطر) کے اعلان پر ہے ۔ جبکہ مفتی شہاب الدین پوپلزئ صاحب  ذوالحج ( عیدالاضحیٰ ) کا اعلان مرکزی کمیٹی کے ساتھ کرتے ہیں۔ شاید مفتی صاحب کم از کم اسلامی سال کا آغاز اتفاق سے کرنا چاہتے ہیں جس کا آغاز محرم سے ہوتا ہے ۔

س ۔ اتنے بڑے عوامی مسئلے پر حکومت کیوں خاموش ہے ؟

ج ۔ شاید مختلف حکومتیں  نااہلی کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہیں کرسکیں ہیں یا حکمران چاہتے ہیں کہ عوام کسی معاشرتی  مسئلے میں اُلجھی رہے اور حکمران بلا کسی تعطل کے لوٹ مار جاری رکھ سکیں ۔

تجاویز :

مرکزی اور پشاور میں موجود مقامی روئیت ہلال کمیٹیوں کے علماء کرام کو چاہئے کہ آپس کے اختلافات ایک طرف رکھ کر اس مسئلے پر یک جہتی قائم کریں اور پہلے سے فرقہ ورانہ اور مسلکی بنیادوں پر تقسیم مسلمانوں کو مزید علاقائی سطح پر تقسیم نہ کیا جائے ۔ اگر یہ علماء خود سے آپس میں اتفاق نہیں کرتے تو پھر حکومت یا کوئی  دوسرا پریشر گروپ یا عوام ان پر دباؤ ڈالیں کہ یہ لوگ اختلافات ختم کردیں ۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر قمری مہینے کے آغاز کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرایا جاسکتا ہے ۔

1 ۔ مرکزی روئیت ہلال کمیٹی پورے ملک سے بلا کسی امتیاز کے شہادتیں وصول کرے اور اعلان کرتے ہٓوئے کمیٹی  کسی سیاسی یا فرقہ ورانہ دباؤ یا مصالحت  کا شکار نہ ہو ۔

2۔ چاند نظر آنے کا کام محکمہ موسمیات کے سپرد کیا جائے ۔ محکمہ موسمیات سائنسی آلات اور علم فلکیات کی روشنی میں قمری مہینے کے آغاز کا مستند فیصلہ کرسکتی ہے ۔ اس سے نہ صرف روئیت ہلال کا دیرینہ مسئلہ حل ہوگا بلکہ ملکی خزانے پر بوجھ بھی کم ہوگا ۔
جدید آلات کا استعمال زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں ہے 

3۔ قمری سال اور مہینوں کا حساب کتاب سعودی عرب سے منسلک کیا جائے ۔ چونکہ سعودی عرب میں امور ریاست کے لیے بھی قمری سال استعمال کیا جاتا ہے   یہی  وجہ ہے کہ وہ لوگ چاند کی روئیت کا خاص اہتمام کرتے ہیں ۔ قمری مہینے کا اعلان سعودی عرب سے منسلک کرکے ہم ہجری سال سے متعلق نہ صرف قومی سطح پر  بلکہ  دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ یکجا ہوسکتے ہیں ۔

4 ۔ اگر مندرجہ بالا تجاویز میں کسی پر بھی عمال کرنا کسی بھی وجہ سے ناقابل عمل ہو تو پھر مرکزی کمیٹی کو تھوڑا جائے اور یہ کام مقامی کمٹیوں کے سپرد کیا جائے تو ہر علاقہ اپنی کمیٹی کے اعلان سے عید منائے گا ۔ ویسے بھی حکومت نے اس دفعہ عید پر پانچ چھٹیوں کا اعلان کیا ہے اور مختلف علاقوں کے  عوام کے پاس کئی عیدوں سے لطف اندوذ ہونے کا بہت سارا وقت دستیاب ہے  ۔

Mufti Abdul Qawi--Member Central Ruet-e-Hilal Committee 


نوٹ : قارئین کرام کو اس بحث سے اختلاف ، اس میں تصحیح اور اضافے کی مکمل آزادی ہے ۔  






Wednesday, 8 July 2015

کالاباغ ڈیم (حصہ پنجم) -- "تجزیہ " -- Kalabagh Dam (P V) Analysis

کالاباغ ڈیم (حصہ پنجم)   -- "تجزیہ "

 کالاباغ ڈیم کو سمجھنے کے لیے بلاگز کا سلسلہ 

کالاباغ ڈیم انڈس ریور کے اوپر ڈیزائن کیا گیا ہے جس کا پانی  1991 کے معاہدے کے تحت تمام صوبوں میں درج ذیل فارمولے کے تحت  تقسیم کیا گیا ہے ۔ تمام وسائل سے حاصل شدہ پانی میں پنجاب کے لیے 37 ٪ ، سندھ 37 ٪     ، خیبر پختونخوا  6 ٪ ، بلوچستان 7 ٪ ، کوٹری  ڈاؤن  سٹریم 5 ٪ اور  لائن لاسسز کے لیے  8 ٪  پانی مختص کیا گیا ہے ۔ 
عام تاثر یہ ہے کہ سیاستدانوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو سیاسی مسئلہ بنا دیا ہے۔ لیکن حالات و واقعات کے تجزیہ کریں تو کالا باغ سیاسی نہیں بلکہ خالصتاً تکنیکی مسئلہ ہے  لیکن غلط طریقے سے ہینڈل کیا گیا ہے۔ ذیل میں کالاباغ ڈیم کے معاملے کو الجھانے والے عناصر اور حل کی جانب پیش قدمی نہ ہونے کی وجوہات کا تجزیہ کیا گیا  ہے ۔
ڈیم مخالف  صوبے ( خیبر پختونخوا ، سندھ اور بلوچستان )
چھوٹے صوبوں کے رہنماؤں نے کالاباغ ڈیم کو زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا ہے ۔ عوامی نیشنل پارٹی شروع سے ہی کالا باغ ڈیم کی مخالف رہی ہے ۔ ولی خان نے دھمکی دی تھی کہ اگر یہ ڈیم بنایا گیا تو وہ بم سمیت اس میں کھود کر اس کو تباہ کردیں گے ۔ اسفندیار ولی کا کہنا تھا کہ کالاباغ ڈیم اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ خیبرپختونخوا کی موجودہ حکومت (تحریک انصاف ) اور دیگر سیاسی پارٹیاں بھی کالاباغ ڈیم کی مخالف ہیں ۔  ڈیم کی مخالفت اُس وقت شروع ہوئی جب  جنرل ضیاء الحق کے دور میں واپڈا نے ضلع نوشہرہ کے علاقوں خیرآباد ، اکوڑہ خٹک اور جہانگیرہ میں کالاباغ ڈیم کے نتیجے میں  آبادی کے انخلا کے لیے نشانات لگا دئے۔  اس پر خیبر پختونخوا کے عوام اور سیاستدانوں اور اُس وقت کے گورنر فضل حق نے کالاباغ ڈیم کی پُرزور مخالفت کی جس سے ڈیم کا منصوبہ تنازعہ کا شکار ہوا ۔ واضح رہے کہ موجودہ وقت میں خیبر پختونخوا میں جنوبی اضلاع کے بعض حصوں کو چھوڑ کر زرعی پانی کی کوئی شدید قلت نہیں ہے ، جس طرح باقی ملک میں ہے ۔ اگر کرم تنگی ڈیم (شمالی وزیرستان ایجنسی) تعمیر ہوجائے تو اس سے صوبے کے جنوبی اضلاع کے لیے بھی پانی مہیا ہوجائے گا۔
صوبہ سندھ نے کالاباغ منصوبے کی سب سے پہلے مخالفت کی اور اس  صوبہ کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے سخت خلاف ہیں ۔ سندھ کا نقطہ نظر  '( 1991  کے معاہدے کے باوجود  ) پنجاب کے ہاتھوں پانی کی چوری' کے نظریہ پر قائم ہے ۔  ماضی میں ذوالفقار علی  بھٹو نے دریائے سندھ سے چشمہ جہلم سے ایک نہر نکالنے کی منطوری دی جس کے تحت یہ نہر دریا میں تغیانی کے وقت (جولائی سے ستمبر تک ) پانی لے سکتی تھی ۔ 1984 میں پنجاب نے بغیر اجازت کے اس نہر کو جاری کردیا جس کے نتیجے میں صوبہ سندھ نے کالاباغ ڈیم منصوبے کے خاتمے کا مطالبہ شروع کیا ۔ سندھ کا اعتراض ہے کہ جب ڈیم میں پانی تمام صوبوں کے لیے ذخیرہ کیا جائے گا تو پانی کا بہاؤ صرف پنجاب کے لیے کیوں ہو؟ سندھ چاہتا ہے کہ کالاباغ کے منصوبے کو صرف بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جائے اور بجلی پیدا کرنے کے بعد پانی کا بہاؤ پھر دریا کی طرف کیا جائے جس سے تمام صوبوں کو ان کے حصے کا پانی پورا ملتا رہے گا ۔  عالمی قانون برائے تقسیم پانی کے مطابق کسی بھی دریا کے آخری حصہ پر موجود فریق کا یہ حق ہے کہ پانی کی ترسیل اس تک ممکن رہے ۔ اس وجہ سے صوبہ سندھ کی رضامندی کے بغیر اس ڈیم کی تعمیر ممکن نہیں ہے ۔
 بلو چستان کی قیادت کا کہنا ہے کہ اگر ملک کے تینوں صوبائی اسمبلیوں نے کالاباغ ڈیم کے خلاف قرار دادیں منظور کی ہیں تو پھر پنجاب زبر دستی اپنی مر ضی چھوٹوں صوبوں پر کیوں ٹھونسنا چاہتا ہے ۔
ڈیم کے حمایتی عناصر
پنجاب کے نا صرف سیاستدان (جو اصل میں  بڑے زمیندار اور صنعتکار ہیں ) ڈیم کی تعمیر کے  حق میں ہیں بلکہ وہاں سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما ( مثلاً سنی اتحاد کونسل ، جماعت اہل سنت ، انجمن طلبائے اسلام ، جمیعت علماء پاکستان   ) اور گجرانوالہ ، فیصل آباد و لاہور چیمبر جیسے ادارے بھی ڈیم کی حمایت میں کوشاں ہیں ۔ پنجاب کے لکھاری ڈیم کی تعمیر کے لیے کبھی چیف جسسٹس سے سوموٹو ایکشن تو کبھی  فوج کے سپہ سالار کی مداخلت  تو کبھی سیاسی رہنماؤں (جسے نواز شریف ، الطاف حیسن ، عمران خان ، پرویز مشرف ) کی طرف یکطرفہ التجائیں کر رہے ہیں۔ 
پنجاب میں کالاباغ ڈیم بنانے کی تحریک کو جہاد کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اسے پاکستان بچانے کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس فارمولے کے تحت جو لوگ کسی بھی وجہ سے ڈیم کے مخالف ہیں وہ پنجاب کی نظر میں غدار ، ملک دشمن ، ڈالروں کے عوض بھارت کے لیے کام کرنے والے اور زہریلے ذہنیت والے عناصر ہیں ۔ یہ گمراہ کن الزامات پنجاب کے نہ صرف دوسرے درجے کے لکھاری اور سیاستدان لگاتے ہیں بلکہ یہ وہاں کے بڑے اور مشہور اخبارات اور اسمبلی کے ممبران کی رائے بھی ہے  ۔ پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن پارلیمنٹ نے اسمبلی میں کہا  کہ جن صوبائی اسمبلیوں نے کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں قراردادیں منظور کی ہیں انہیں توڑ دینا چاہئے ۔ پنجاب اسمبلی میں انکشاف کیا گیا کہ ڈیم کی حمایت کرنے والوں کو قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔ دوسری طرف پنجاب کالاباغ کے علاوہ  پانی و بجلی کے دیگر منصوبوں کی تعمیر پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہے  ۔
آخر
اگرچہ ڈیم کے حامییوں کا دعویٰ ہے کہ اس ڈیم سے پورے ملک کو سستی بجلی اور  اضافی پانی فراہم ہوگا لیکن اس سے بھی زیادہ چاروں صوبوں میں اتفاق رائے اور یک جہتی ضروری ہے ۔ اگرچہ ظاہری طور سے یہ بات عیاں ہے کہ کالا باغ کی تعمیرکا مقصد دریائے سندھ کا پانی روکنانہیں ہے بلکہ اس کا مقصد بارشوں اور سیلاب کے پانی کو کالاباغ ڈیم میں جمع کر لینا ہے اور اس ڈیم سے پورے پاکستان کو پانی اضافی طور پر فراہم کیا جا سکے جس کی زیادہ تر مقداد بہہ جاتی ہے لیکن اعتماد کی کمی کے باعث رائے ہموار نہیں ہورہی ہے ۔
 بھارت مقبوضہ کشمیر سے آنے والے تمام دریاؤں اور ندی نالوں کا پانی روک کر ڈیم تعمیر کر رہا ہے ۔ لیکن دوسری طرف ہمارے حکمران  قلیل المدت سوچ رکھتے ہیں اور وہ ایسے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں جس سے  وہ   ذاتی فائدہ بھی اٹھائیں اور اگلے انتخابات میں ووٹ بھی حاصل کریں ۔ واضح رہے کہ ڈیم بنانا چھ سے دس سال کا پراجیکٹ ہوتا ہے اور اگر ڈیم کی تعمیر کے دوران انتخابات کے ذریعے دوسری پارٹی برسراقتدار آجائے تو ڈیم کا سیاسی فائدہ اُن کو مل سکتا ہے  ۔ آبی منصوبوں کا التواء قوم سے دھوکے کے مترادف ہے ۔
اگر کالاباغ اختلافات کا شکار ہے تو حکمرانوں کو  دوسرے ڈیم بنانے سے کس نے روکا ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکمرانوں کی ذہنی استعداد اور ویژن کم ہے ؟ ان کے گھروں کو تو بجلی پہنچتی ہے ، جنریٹروں کو قومی خزانے سے تیل ملتا ہے ، اور سب سے بڑھ کر یہ لوگ تو اپنا مستقل ٹھکانہ بیرون ملک کو سمجھتے ہیں یہاں تو وہ حکمرانی اور مال بٹورنے کے لیے بیٹھے ہیں اور جب خدانخواستہ حالات خراب ہوئے تو عوام کو اندھیروں میں چھوڑ کر خود بھاگ جائیں گے  ۔ جس قوم کے لوگ محلے میں ایک نالی بنوانے  پر ساری عمر ووٹ دیتے ہوں وہاں کے سیاستدانوں کی سوچ ڈیم بنانے کی طرف کیوں جائے گی ؟ دوسری بات یہ ہے کہ حکمرانوں کے سریا و سیمنٹ کے کارخانے نالی اور سڑکوں کی تعمیر کے لیے مال فراہم کررہے ہیں اور اُن کے کارخانوں کا منافع ابھی جاری ہے ۔ اگر ان کے کارخانے اس مقدار میں مال بنانا شروع کرے جس کے لیے ڈیم جیسے بڑے منصوبے کی ضرورت ہو تو شاید حکمران پھر ڈیم بنانے کی طرف متوجہ ہوں ۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم کا بننا صوبوں کی عدم تسلی اور حکمرانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ممکن ہی نہیں تو حکومتیں (اور کچھ دیگر عناصر ) کیوں ایک مردے گھوڑے کو زندہ کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت بعض مسائل اور امور سے فرار اختیار کرنے اور سیاسی سکور کرنے  کے لیے کالاباغ ڈیم کا سہارا لے رہی ہو ؟ اگر کالا باغ ڈیم کی تعمیر ممکن نہیں تو ایسی صورت میں عوام کو زمینی حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے متبادل ڈیموں پر کام کا آغاز کر دینا چاہئے ۔
جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ںوٹ : قارئین کرام کو اس تجزئے سے اختلاف اور اس میں تصحیح کی مکمل آزادی ہے ۔

Friday, 3 July 2015

کالاباغ ڈیم (حصہ چھارم) "صوبوں کا نقطہ نظر" -- "Kalabagh Dam (P IV) "Point of view of provinces

کالاباغ ڈیم (حصہ چھارم) "صوبوں  کا نقطہ نظر"

کالاباغ ڈیم کی تعمیر  سے حاصل ہونے فوائد کے باوجود پنجاب کے علاوہ ملک کے  تین صوبوں میں اس منصوبے سے متعلق عوامی رائے ہموار نہیں ہوسکی ہے جس کی وجہ سے کئی بار کی کوششوں کے باوجود اس ڈیم کی تعمیر پر اتفاق رائے نہیں ہو پایا ۔ بلاگ کے اس چوتھے حصے میں ڈیم  کے متعلق عمومی تحفظات اور صوبوں کا نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے ۔
منصوبے پر تکنیکی اعتراضات
بعض ماہرین کے مطابق دریائے سندھ میں پانی کا اوسط بہاؤ کالاباغ ڈیم کے لیے مطلوبہ مقدار سے کم ہے  جس کی وجہ سے ڈیم کے خشک رہنے کا  خدشہ  موجود رہے گا ۔ دوسری طرف  اگر افغان حکومت دریائے کابل پر بند باندھے تو اس سے  پاکستان میں دریائے کابل کے ذریعے آنے والے پانی کی مقدار کم ہوجائے گی جس کے نتیجے میں کالاباغ ڈیم کے لیے پہلے سے بھی کم پانی میسر ہوگا ۔  ماہرین کہتے ہیں کہ  کالاباغ ڈیم پر خرچ ہونے والی رقم اگر دریاؤں اور نہروں کی بہتری  پر خرچ کی جائے تو اس سے پانی کا ضیاع ختم ہوسکے گا اور ملک میں موجود پانی کی کمی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔
 دریائے کابل پشاور اور نوشہرہ سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے 
کالاباغ بند زلزلوں کے لحاظ سے انتہائی خطرناک خطے (فالٹ لائن) کے قریب  واقع ہے ۔  علاقے میں موجود زیرزمین دراڑین ذخیرہ کیے گئے پانی کو سمو  لیں گی اور دریا میں پانی کا بہاؤ کم ہوجائے گا ۔  اکتوبر 2005 کے شدید زلزلے کے بعد اس بات کا خوف بھی پیدا ہوا ہے  کہ زلزلے کی صورت میں خدانخواستہ ڈیم پھٹنے کا بھی خدشہ موجود رہے گا ۔ اسکے علاوہ پہلے سے تعمیرشدہ بندوں کے نتیجے میں جو انسانی اور ماحولیاتی مسائل پیدا ہوئے ہیں ابھی تک ان مسائل کو بھی پوری طرح  حل نہیں کیا گیا ہے ۔ کالاباغ ڈیم سالٹ رینج میں واقع ہے جس سے اس ڈیم کی ساخت کمزور ثابت ہوسکتی ہے ۔  کالاباغ بند میں جمع ہونے والی ریت کا مسئلہ ماحولیاتی مسائل میں اور بھی اضافہ کرگا ۔
حکومت پاکستان نے 2003 میں  پانی کے وسائل اور کالاباغ بند کے منصوبے کے تکنیکی فوائد و نقصانات کا جائزہ لینے لے لیے اے۔ این ۔ جی عباسی کی سربراہی میں ایک تکنیکی کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ اس کمیٹی نے دو سال بعد اپنی رپورٹ میں واضح طور پر رائے دی کی بھاشا اور کٹزرہ بند کی تعمیر جلد از جلد شروع  کرنی چاہئے  اور چونکہ  کالاباغ منصوبہ ملکی مفاد میں نہیں ہے لہٰذا اسے پس پشت ڈال دینا مفید ہوگا ۔
منصوبے پر عمومی تحفظات

اس منصوبے کے ماحول پر بھی کئی مضر اثرات لاحق  ہو سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ منصوبہ ایک بڑی آبادی کی ہجرت کا بھی سبب بنے گا  ۔ چونکہ ڈیم کے مخالفین نے حاصل ہونے والے فوائد کی نسبت اس کے نقصانات کو واضح طور پر اجاگر کیا ہے اس لیے کالاباغ بند کی تعمیر کی مخالفت اس حد تک ہوچکی ہے کہ اس سے ملک میں نقص امن اور وفاق سے علیحدگی کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے ۔ ماہرین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم کی سٹوریج کپیسیٹی میں سِلٹ (دریا یا جھیل کی تہہ میں مٹی اور ریت کا جمع ہونا -- Silt)  کیوجہ سے جو کمی واقع ہو چکی ہے وہ مجوزہ کالا باغ ڈیم کی سٹوریج کپیسیٹی کے برابر ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ صرف نئے آؤٹ لٹ تعمیر کرکے سلٹ کو فلش آؤٹ کیا جا سکتا ہے جس سے کالا باغ ڈیم کے برابر کپیسیٹی دستیاب ہو سکتی ہے اور نئے ڈیم کی تعمیر کے مقابلے میں آؤٹ  لٹس پر بہت کم خرچہ آئے گا ۔

نوٹ : کالاباغ ڈیم پر چند  اعتراضات بلاگ کے پچھلے ( یعنی تیسرے ) حصے میں بھی درج ہیں ۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر صوبوں کا نقطہ نظر
کالاباغ بند کی تعمیر کے منصوبے کو  پاکستان کے تین صوبوں خیبر پختونخوا ، سندھ اور بلوچستان سے اعتراضات کا سامنا ہے جبکہ  ڈیم کی تعمیر کے حق میں صرف صوبہ پنجاب ہے ۔ پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں نے مختلف ادوار میں  کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف متفقہ قراردادیں منظور کی ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں قومی اسمبلی بھی اس ڈیم کے خلاف قرارداد منظور کر چکی ہے ۔
خیبر پختونخوا کا نقطہ نظر
خیبر پختونخوا کے کالاباغ ڈیم پر اعتراضات عبدالولی خان نے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں اٹھائے تھے اور اُس وقت سے لیکر کالاباغ ڈیم کی مخالفت عوامی نیشنل پارٹی کی سیاست کا محور بن چکا ہے ۔  صوبہ خیبر پختونخوا کے کالاباغ بند پر دو بڑے اعتراضات ہیں ۔
1 ۔ خیبر پختونخوا کے وسطی اضلاع کے لیے خطرہ :  خیبر پختونخوا کی حکومت اور عوام کا سب سے بڑا اختلاف یہ ہے کہ اس ڈیم  کا ڈئیزائن نوشہرہ ، صوابی ، مردان ، چارسدہ  اور پشاور کے لئیے موزوں نہیں ہے اور ڈیم کے جھیل کی خطرناک حد تک زیادہ اونچائی سے خیبر پختونخوا کے کئی زرخیز زرعی اور شہری علاقے ڈوب سکتے ہیں ۔  کالاباغ بند کے ذخیرے کا  بیشتر حصہ خیبر پختونخوا میں واقعہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف نوشہرہ بلکہ گرد و نواح کا پورا علاقہ سیم و تھور کا شکار ، ریت جمع ہونے سے ایک بڑا علاقہ بنجر اور  ہمہ وقت سیلابوں و شہری علاقے کے زیر آپ آنے کا خطرہ موجود رہے گا  ۔ سیلاب کی صورت میں دریائے سندھ میں پانی کی بلندی کافی بڑھ جاتی ہے جس سے دریائے کابل میں پانی بیک پریشر کا شکار ہوکر اُلٹا بہے گا اور اضافی پانی لبریز  ہوکر نشیبی علاقوں میں چھلک کر سیلابی شکل اختیار کر سکتا  ہے ۔ 2010ء  کے سیلاب کی تباہ کاریوں نے ان خدشات کو سپورٹ کیا ہے ۔   یہ ڈیم دریائے کابل میں سلٹ بھرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔  کرک اور مضافاتی علاقوں میں پانی کھارا / نمکین ہو نے کا خطرہ ہو گا (کرک کے اکثر علاقوں میں پانی پہلے سے نمکین ہے ) ۔
دریائے سندھ اور دریائے کابل کا سنگھم 
2۔ ڈیم کی رائییلٹی : خیبر پختونخوا کا دوسرا بڑا اعتراض ڈیم کی رائیلٹی پر ہے ۔ ڈیزائن کے مطابق کالا باغ بند کا ذخیرہ تو خیبر پختونخوا میں واقع ہوگا جو صوبے کے لیے کئی مسائل کا سبب بنے گا  لیکن بجلی پیدا  کرنے والی ٹربائنیں خیبر پختونخوا کی حدود سے چند سو گز کے فاصلے پر صوبہ پنجاب کی حدود میں واقع ہوں گی جس کی وجہ سے ڈیم کی رائیلٹی کا حقدار  پنجاب تصور ہوگا ۔
 خیبر پختونخوا میں احتجاج میں ڈیم کے فائدے اور نقصانات کو واضح کیا گیا ہے 
خیبر پختونخوا میں نہ صرف نیشنل عوامی پارٹی ڈیم کی مخالف ہے بلکہ صوبے کی دوسری مقبول سیاسی پارٹیاں جیسے کے  پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان پیپلز پارٹی ، قومی وطن پارٹی اور عوامی جمہوری اتحاد کھل کر ڈیم کے خلاف ہیں ۔
سندھ کے اعتراضات
کالاباغ ڈیم پر سب سے زیادہ اور شدید اختلاف رائے صوبہ سندھ کا رہا ہے ۔ سندھ کے ڈیم بننے پر دو بڑے اعتراضات ہیں۔
1۔ دریائے سندھ میں زرعی پانی کی کمی : سندھ کی قیادت سمجھتی ہے کہ ڈیم بننے سے صوبہ سندھ کے حصے کا پانی کم ہوجائے گا جس کی وجہ سے سندھ کو پہلے سے کم پانی ملے گا ۔ ڈیزائن کے مطابق کالاباغ ڈیم میں ذخیرہ ہونے والا پانی نہروں کے ذریعے  پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرے گا  ۔ سندھ کا اعتراض ہے کہ جب پانی تمام صوبوں کے لیے ذخیرہ کیا جائے گا تو پانی کا بہاؤ صرف پنجاب کے لیے ہی کیوں ہو ؟
سندھی عوام کالاباغ ڈیم کے شدید خلاف ہیں  
2۔ دریائے سندھ میں سمندر کے لیے پانی کی کمی :سندھ کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ دریائے سندھ کا پانی کم ہونے سے ساحل سمندر کے قریب کا علاقہ سمندری پانی کی لپیٹ میں آ کر برباد ہو جائے گا کیونکہ سمندری پانی کو سمندر میں محدود رکھنے کیلئے دریائے سندھ میں ایک خاص مقدار کے پانی کا بہنا انتہائی ضروری ہے ۔ دریائے سندھ میں پانی کم بہنے سے سمندر کا کھارا پانی سندھ میں داخل ہوگا جس سے لوگوں میں بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ ہوگا اور نمکین پانی سے فصلوں کو نقصان  پہنچے گا ۔  زمین میں نمک کی شرح  بڑھنے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زمین کاشت کے قابل نہیں رہے گی   ۔ دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں کمی کی صورت میں ساحل سمندر پر موجود جنگلات ، زرعی زمین اور آبی حیات کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں جس کا منفی اثر ماحول پر بھی پڑے گا ۔ اس بند کی تعمیر صوبہ سندھ میں موجود جھیلوں میں پانی کی عدم دستیابی کا سبب بن کر منفی ماحولیاتی اثرات  اور آبی حیات کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے ۔ تربیلا اور منگلا ڈیم کی تعمیر سے صوبہ سندھ کو پہلے ہی پانی کی کمی کی شکایت ہے ۔
Mangrove Forest  سمندر کے نزدیک دریائے سندھ کے کنارے منگرو  کے جنگلات 
بلوچستان کے اعتراضات
جہاں تک بلو چستان کے تحفظات کا تعلق ہے تو انکا کہنا ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو اس سے بلو چستان کی پانی میں مزید کمی ہوگی کیوں کہ دریائے سندھ کی استعداد میں کمی آجائے گی جس کی وجہ سے بلو چستان کی مستقبل کی ضروریات پو را کر نے کے لئے پانی مہیا نہیں ہو گا۔ صوبہ سندھ    ،   بلوچستان کو پانی فراہم کرتا ہے اس لیے جب تک صوبہ سندھ  ڈیم کی تعمیر کے حق میں نہیں ہوگا تو بلوچستان بھی ڈیم کے حق میں کوئی فیصلہ نہیں سنا سکتا ہے ۔  اگرچہ بلوچستان کا صوبہ کالاباغ کی تعمیر سے براہراست متاثر نہیں ہوتا لیکن وہاں کے قوم پرست سردار اس منصوبے کو پنجاب کی چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی تصور کرتے ہیں ۔
پنجاب کا نقطہ نظر
پورے پاکستان میں پنجاب واحد صوبہ ہے جو ڈیم کی تمیر کے حق میں ہے۔ پنجاب کو ڈیم سے کئی ایک فائدے حاصل ہونگے جس کی وجہ سے وہاں کے سیاستدان  ڈیم بنانے کے لئے  سرتھوڑ کوششیں کر رہے ہیں ۔ ڈیم سے نہریں بنا کر پنجاب کے بہت سے علاقوں کو سیراب کیا جاسکے گا ۔ اس لیے ان زمینوں کے مالکین / وڈیرے (جو عموماً سیاستدان بھی ہیں ) ہر حالت میں ڈیم کی تعمیر چاہتے ہیں ۔ ڈیم سے بننے والی سستی بجلی موجودہ لوڈشیڈنگ کو کم کرنے میں مدد دے گی جس سے  پنجاب کے صنعتی شہروں میں کارخانے بھرپور طریقے سے چل پڑیں گے اور صنعتکاروں ( جو اسمبلی ممبران بھی ہیں ) کا منافع برقرار رہے گا ۔ کالاباغ ڈیم کے پانی کا ذخیرہ خیبر پختونخوا میں ہونے سے پنجاب کو ڈیم کی تعمیر سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا جب کہ ڈیم کے ٹربائن پنجاب میں نصب کرکے اوپر سے  ڈیم کی رائیلٹی بھی حاصل ہوگی ۔ ڈیم میں ذخیرہ شدہ پانی (چاہے وہ سیلابی اور اضافی ہو یا دریائے سندھ کا اپنا ) پر پنجاب کا کنٹرول ہوگا اور وہ اسے اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق استعمال میں لاسکے گا ۔ صوبہ پنجاب میں کالا باغ واحد علاقہ ہے جہاں بڑا ڈیم تعمیر ہوسکتا ہے لہٰذا پنجاب اپنے زرعی پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کالاباغ ڈیم کی پُرزور حمایت کرتا ہے ۔
دوسری طرف پنجاب کا دعویٰ ہے کہ پانی کی تقسیم کے فارمولے کے حساب سے پنجاب کا حصہ نہیں بڑھے  گا  بلکہ ڈیم کی تعمیر سے اُسے زمین اور جائیداد کا نقصان اٹھانا پڑے گا ۔
جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ 
نوٹ:  قارےئین کرام کو اس بلاگ میں درج شدہ وضاحتوں سے اختلاف ، اس میں تصحیح اور وضاحتوں پر اعتراض کی مکمل آزادی ہے ۔