Saturday, 29 July 2017

ذاتی بدلہ ۔ پانامہ کے مجرم اور وکیل کے متعلق سچی کہانی

   ذاتی بدلہ  (سچے کرداروں پر مشتمل کہانی )

آج سے تقریباً 40 سال پہلے پاکستان میں ایک ابھرتا ہوا نوجوان وکیل اپنی صلاحیتوں کے بل پوتے مختلف حلقوں میں موضوع سُخن تھا ۔ وکیل صاحب نے اُس وقت کے واحد سرکاری ٹیلی ویژن سے بہترین پروڈیوسر اور عظیم لکھاریوں کی معاونت سے کئی یادگار پروگرام بھی پیش کئے ۔ وکیل نے اپنی مسکراہٹ ، ظرافت اور خوبصورت جملوں کے انتخاب سے ہر شخص کو اپنا گرویدہ بنایا اور یوں عوام میں زبردست شہرت حاصل کی ۔



اس سچی کہانی کے دوسرے کردار کا تعلق پاکستان کی مقبول سنگر گھرانے سے ہے ۔ اسی گھرانے کی سنگر کی طرف سے  بڑھاپے کی عمر میں گائے جانے والا نغمہ
 ابھی تو میں جوان ہوں
ہوا بھی خوشگوار ہے
گلوں پر بھی نکھار ہے
ترنم ہزار ہے ، بہار پُر بہار ہے ۔ حفیظ جالندھری
 نے بے شمار بوڑھوں کو گزرتی عمر کا احسان نہیں ہونے دیا ۔ گلوکارہ  کی ایک خوبصورت بیٹی بھی سرور و آواز کی نگری میں وارد ہوئی ۔ اس زمانے میں اچھی موسیقی اور بہترین آوازوں کے ساتھ ساتھ ایک سے بڑھ کر ایک  خوبصوت ترین چہرے موسیقی کی دنیا کو یادگار بنارہے تھے۔ اس کلاسک دور میں میڈم نورجہاں ، اقبال بانو، فریدہ خانم ، مسرت نظیر ، ناہید اختر ، سلمیٰ آغا ، ناذیہ حسن وغیرہ کے نغموں نے سماعت اور بصارت دونوں حسوں کو تسکین پہنچائی ۔ ایسے وقت میں تمام خصوصیات کی حامل اس ماہ رُخ کی موسیقی کی دنیا میں وارد ہونا ایک خوشگوار اضافہ ٹھرا ۔ موسیقی کی بہترین تربیت ، خوش آوازی ، خوبصورتی اور سب سے بڑھ کر دلکش اداؤں نے اس دختر دلربا کوصداکاری اور اداکاری کے مقبولیت کی اس معراج پر لا بٹایا جہاں اس کے لیے  برابر کا ساتھی ملنا بہت دشوار ہوچکا تھا ۔ موصوفہ نے نوجوان وکیل اور مقبول ٹی وی میزبان کو ہی اپنا ہم پلہ سمجھا اور یوں دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے  ۔ 

یل پل جھوموں ، جھوم کے گاؤں ۔ 
 دل میں پیار ہے  تیرا ، میں تیری تو میرا رے
آ ہم ایسے گھل مل جائیں ، جیسے شام سویرا ۔ 
 تجھ کو پون بھی چھو جائے تو ،     رو رو نیناں جل تھل کردوں ۔  
 آ پھلکوں میں تھام کے تجھ کو ،  سب دنیا سے اوجھل کردوں ۔ 
تجھ کو مجھ سے دور نہ کردے ،        کوئی چور لٹیرا ۔
سیپ میں جیسے بند ہو موتی ، یوں رہنا تو میرے دل میں ۔
سارے دیپ بجھا کر تیرا دیپ جلایا اس محفل میں ، اس محفل میں آکر ساجن کرلے رہن بسیرا
 پیار کیا ہے میں نے تجھ سے ، مر کے بھی میں پیار کرونگی
تجھ سے بچھڑ کر جینا ہو تو  ، تو جینے سے انکار کرونگی
تن میں میرے سانس ہے جتنے ، اُن میں نام ہے تیرا   
محترمہ کا گایا ہوا گیت ، شاعر قتیل شفائی ۔  
 لیکن خوشگوار شادی شدہ زندگی ، بیٹے کی نعمت و بیٹی کی رحمت اور ہر دلعزیزی کو نظر بد لگ گئی ۔

کہانی کا تیسرا کردار پاکستان کا ابھرتا ہوا سیاستدان ہے ۔ تقیرباً 40 سال پہلے جب فوجی 
حکمرانوں کو بناوٹی جمہوریت کی ضرورت پیش آئی تاکہ عوام کو مزید کچھہ عرصہ خاموش رکھا جاسکے تو کئی ایک طالع آزماؤں کو مقاصد کے حصول کے لیے میدان میں اتارا گیا ۔ اور لوگوں کے علاوہ فوجیوں کی گود میں پھلے بڑھے  ایک شہری و کاروباری شخص  کو صوبائی وزیر بناکر بطور خصوصی مہرہ آزمایا گیا ۔ جب کارندے نے بہترین جی حضوری دکھائی تو بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کا منصب اس کا اگلا مقام ٹھرایا گیا ۔ 

وزیراعلیٰ صاحب نے مقتدر حلقوں کے امور سرانجام دینے کے ساتھ اپنے کاروبار کو ایسی وسعت دی کہ اس کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ اگلے انتخابات کے وقت فوجی حکمران تو زندہ نہ رہا لیکن اس کی سوچ فضا میں موجود رہی ۔ مخالفین کو میدان سے باہر رکھنے کے لیے اپنی ہی نرسری کے سیاستدان کو سابقہ حسن کارکردگی کی بنیاد پر 9 ہمخیال جماعتی اتحاد کا سربراہ بنایا گیا ۔ ایک بڑی سرکاری رقم کے ذریعے دائیں بازو ، قدامت پرست و نیم مذہبی خیالات کے ووٹر کو  باور کرایا  گیا کہ یہی اتحاد ہی پاکستان کو نظریاتی مملکت کے طور پر متحد رکھ سکتا ہے ۔ بھر پور کوشش کے باوجو مرکز میں یہ  اتحاد حکومت نہ بنا سکا البتہ پنجاب میں یہی سیاستدان وزیراعلیٰ اور اس کے  چھوٹے بھائی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ اگلے انتخابات کے لیے زیادہ انتظار نہیں کروایا گیا اور جب دو سال بعد انتخابات ہوئے تو اس بار سابقہ تجربے سے سیکھتے ہوئے  بغیر کسی غلطی کے من پسند اتحاد کو جتوایا گیا اور موصوف صاحب پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے ۔ وزیراعظم صاحب نے ملک کے خدمت سے زیادہ توجہ کرپشن پر دی اور دولت کے ڈھیر بنانے میں تو کامیاب رہا لیکن حکومت کو دو سال بعد گرانے سے نا بچا سکا ۔

قارئین کرام ۔ سیانے لوگوں نے کہا ہے کہ دولت اپنے ساتھ خواہشات کے حصول کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ لاتا ہے جو اکثر مصیبتوں کا پیش خیمہ بنتا ہے ۔ اور اگر یہ دولت ناجائز طریقے سے کمائی جائے تو یہ اخلاقی گراوٹ کا سبب بھی بنتا ہے ۔ یہی کچھ اسی سیاستدان کے ساتھ بھی ہونا تھا لیکن قدامت پرست ووٹ بینک اور عوامی نمائندے کی حیثیت سے کھلے عام برائی میں پڑنا مشکل تھا ۔ لہٰذا ہر پُرکشش عورت پر نظر لگا کر شادی کی پیش کش کی جاتی رہی اور کچھ وقت گزرنے کے بعد خاموشی سے تعلقات ختم کردئے جاتے ۔ چھوٹے بھائی نے تو کئی قانونی شادیاں رچالیں ، پر موصوف کو سیاسی خوف نے ایسا نہیں کرنے دیا اور کوشش بسیار کے باوجود اپنی سوچ کو عملہ جامہ نہ  پہنا سکے ۔

اسی نودولتیہ سیاستدان نے اپنے ہم علاقہ صراحی دراز گردن خاتون گولوکارہ کو پہلے ہی سے اپنی ہٹ لسٹ پر رکھا تھا ۔ اور جب حکومت میں آئے تو موصوفہ کو سرکاری انعامات و اکرامات سے نوازا گیا اور محبت کے جھانسے میں شادی کی پیش کش کردی ۔ 
 تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہو ، میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
  ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی ، کوئی بات صبر آزم چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو ، کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل ، چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
 بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی ، بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں۔ 
شاعر ۔ محمد اقبال 
ماہ جبیں سنگر بھی ایک اولوالعزم خاتون تھیں ، اور اسی خیال سے دل کو دھوکہ دیا کہ دولت اور حکومت ساتھ ہوں تو محبت اصلی ہو یا نقلی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ایسا لگتا ہے کہ گلوکارہ کے گائے ہوئے ایک مشہور غزل کے اشعار موصوفہ کے لیے ہی لکھے گئے ہیں۔
 یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
 وہ بُت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے
  یہ میرے ساتھ کیسی روشنی ہے
 کہ مجھ سے راستہ دیکھا نہ جائے
 یہ کن نظروں سے تو نے آج دیکھا
 کہ تیرا دیکھنا دیکھا نا جائے 
 ۔ شاعر ۔  احمد فراز

 اپنی ہی گائے ہوئے غزل کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے  شکار بن کر گلوکارہ  بےچاری شکاری کی باتوں میں ایسے آگئی جیسے کہ بہلنے اور پھسلنے کے لیے تیار بیٹھی ہو ۔ ان عظیم عزائم کے حصول کے لیے پہلے شوہر سے علیحدگی ضروری تھی اور جب میاں بیوی میں کوئی ساتھ چھوڑنا چاہے تو علیحدگی کے لیے کوئی خاص ظاہری وجہ کا ہونا ضروری نہیں ہوتی ۔ وکیل صاحب نے حالات کے سامنے شکست تسلیم کی اور گلوکارہ بیوی کو اسکا قانونی حق دیتے ہوئے آزاد کرادیا اور یوں 15 سالہ رفاقت کا خاتمہ ہوا ۔ دولت ، طاقت اور رعونت سے شکست کھانے والا وکیل پس پردہ چلا گیا اور صرف وکالت پر توجہ دینے لگا ۔ بقول شاعر
  میری غربت نے اڑایا ہے میرے فن کا مذاق
  تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں  
عالم پناہ  نے اپنے پیار کے دعوؤں کو سیاسی دعوؤں کے طرح نبھایا اور خاتون کو کچھ عرصہ تعلق کے بعد بتایا کہ یہ تو ساری دل لگی کے لیے تھا ، میں روایتی عوام کی نمائندگی کا دعوہ دار ہو کر ایک گانے والی کو کیوںکر بیوی بناسکتا ہوں ۔  جھیل جیسی آنکھوں والی ، گلابی ہونٹ اور کتابی چہرہ گلوکارہ  بےچاری کا ہنستہ بستہ پہلا گھر اجھڑ گیا اور دوسرا خوابوں والا گھر نہ بس سکا ۔ گلوکارہ اپنے بچوں کے کو لے کر گمنامی کی دنیا میں چلی گئی ۔
  
وقت کے رفتار کا پہیہ گھومنے لگا ۔ سیاستدان پچھلی صدی میں دوسری مرتبہ بھی وزیراعظم بنا اور چھوٹے بھائی کو بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ بنوادیا ۔ دونوں برائے نام ہی شریف تھے کیونکہ حکومتی اختیارات کو اپنی ہوس زر کے لیے استعمال کرتے ہوئے  پہلے سے بھی زیادہ دولت مند بن گئے ۔ اس بار بھی بہت جلد ان کی حکومت کا تختہ الٹا دیا گیا ، دونوں شریف ذادے قید ہوئے  مگر بیرونی مداخلت پر دس سالہ جلاوطنی کا معاہدہ کر کے جان اور مال بچا نے میں کامیاب ہوئے ۔ سات سال بعد ملک واپس لوٹے تو انتخابات کے نتیجے میں چھوٹا بھائی بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ بن گیا ۔ اس دوران دونوں بھائیوں نے اپنے ہی فلسفے پر بچوں کی سیاسی اور اخلاقی تربیت جاری رکھی ۔ بچے بھی دولت کے انبار اکھٹے کرنے میں مصروف رہے اور سیاسی جان نشین کے طور پر ان کو سامنے لایا جانے لگا ۔ بچے بھی بڑوں کی طرح دولت اور شادیوں کے شوقین نکلے ۔ اگلے انتخابات میں سیاستدان کو ملک کا وزیراعظم بنایا گیا ، بعض لوگ بضد ہیں کہ وہ عوام کے ووٹوں سے ہی حکومت بنانے میں کامیاب ہوا تھا ۔ اس دفعہ اس سیاستدان  کا واسطہ ایک ایسے ناتجربہ کارسیاسی مخالف سے پڑا جو بڑا کھلاڑی ثابت ہوا ۔ کھلاڑی نے شروع دن سے وزیراعظم پر الزامات لگائے لیکن وزیراعظم نے چھوٹے موٹے سیاستدانوں کو خرید کر کھلاڑی کے واروں کو کھوکھلا بنادیا ۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ایک رات پاکستان سے بہت دور، ایک چھوٹے سے ملک میں رجسٹرڈ کمپنیوں کا ریکارڈ افشا ہوا ۔ جس سے پتہ چلا کہ وزیراعظم نے کمال مہارت سے اپنی ساری دولت بچوں کے نام منتقل کی ہے اور اسی دولت میں اضافہ کرنا تو ان بچوں کے لیے گویا بچوں کا کھیل ثابت ہوتا رہا ۔ وزیراعظم کی اس کھلی کرپشن کے خلاف کھلاڑی نے شور مچایا کہ یہ 'چوری کا مال ہے' ۔ عدالت حرکت میں آئی اور ایک صبر آزما اور طویل مقدمے کے بعد وزیراعظم کو عمر بھر کے لیے نا اہل کیا گیا اور اس کے داماد اور سمدھی کو بھی عوامی نمانئندگی کا اہل نہ سمجھتے ہوئے ہٹایا گیا ۔


دوسری طرف اس 25 سال کے وقفے میں وکیل صاحب کا نام اس وقت ابھر کر سامنے آیا جب اس نے ایک خط کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر الزامات لگائے ۔ لیکن یہ خط اُس وقت کے عوام کے جذباتی بہاؤ کے مخالف ٹھرا اور شہرت کے جھنڈے نہ گاڑ سکا ۔

بالاخر وقت نے  اس ایک سال کم ستر سالہ وکیل کو دشمن زیر کرنے کا ایک موقع ہاتھ تھما دیا ۔  وکیل موصوف نے جب وزیراعظم کے خلاف چلنے والے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مقدمے میں عوام اور میڈیا کی دلچسپی دیکھی تو پہلے کھلاڑی سیاستدان کو اپنا کپتان تسلیم کیا اور اس کے بعد اس تاریخی مقدمے کی پیروی کے لیے اپنی خدمات بغیر کسی صلے کے پیش کیں ۔ وکیل صاحب نہایت مستعدی سے عدالت میں بھی پیش ہوئے اور میڈیا کے نمانئندوں کے  سامنے بھی ۔ عدالت میں پھنستے تو کبھی شعر و شاعری اور کبھی ہنسی مذاق سے ماحول کو اپنے خلاف گرمانے سے بچائے رکھتے ۔ جج صاحبان کی عدالت سے باہر آتے تو دھوپ میں صحافیوں کی لگائی ہوئی عدالت میں پیش ہوتے  اور میڈیا کے کیمروں سے پرانی آشنائی کی بدولت اپنے مقصد کو کامیابی سے پھیلاتے رہے ۔ آخرِ کار ساری محنت رنگ لائی اور عدالت نے فیصلہ اُن کے حق میں سُنا دیا ۔ اس کامیابی نے وکیل کو زندگی کی سب سے بڑی کامیابی عطا کی ۔
 لیکن وکیل تو مقدمہ نہ ہارتا ہے نہ جیتتا ہے بلکہ وہ ایک پروفیشنل کی طرح اپنے کام سے غرض رکھتا ہے جس کے لیے وہ اپنے مؤکل سے پیسے وصول کرتا ہے ۔ مگر یہ مقدمہ تو بغیر پیسوں کے لڑا گیا ایسے میں وکیل اپنی جیت پر کیوں خوشی سے نہال ہورہا ہے ۔ اس جذباتی خوشی کی وجہ شاید یہ ہے کہ وکیل نے اس مقدمے کی بدولت دہائیوں بعد اپنا ذاتی بدلہ لے لیا تھا ۔
شاید یہ غزل محترمہ نے اپنی حالت سے بے خبر ہوکر گایا تھا ۔ 

  وہ باتیں تری وہ فسانے تیرے ، شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
بس ایک داغ سجدہ مری کائنات ،  جبینیں تری ، آستانے تیرے
ضمیر صدف میں کرن کا مقام ، انوکھے انوکھے ٹھکانے تیرے
مظالم ترے عافیت آفریں ، مراسم سہانے سہانے ترے
فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی ، ہیں بھرپور جب تک خزانے تیرے
دلوں کو جراحت کا لطف آگیا ، لگے ہیں کچھ ایسے نشانے تیرے 
اسیروں کی دولت اسیری کا غم ، نئے دام تیرے پرانے تیرے
  بس ایک زخمِ نظارہ ، حصہ مرا ۔ بہاریں تری ، آشیانے ترے
 فقیروں کا جمگھت گھڑی دو گھڑی ، شرابیں تری ، بادہ خانے ترے  
ضمیر بھی ہے تیرا حکایت کدہ ، کہاں تک گئے ہیں فسانے تیرے
بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم ، بُرے یا بھلے ، سب زمانے تیرے
عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ ، کہاں تک گئے فسانے تیرے
شاعر ۔ عبد الحمید عدم 
نوٹ 
: اس کہانی کے کردار اور واقعات سچائی پر مبنی ہیں ، البتہ جذوئیات افسانوی ہیں ۔ کرداروں کے اصلی یا فرضی نام نہیں رکھے گئے ہیں تاکہ قاری اپنی سوچ پر ان کرداروں 
کی مطابقت تشکیل دے سکے ۔

محترمہ کے دیگر گائے ہوئے غزل بھی اسی کہانی کے لیے مناسب ہیں  جیسا کہ 

اب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میری مان جائیے ، اللہ تیری شان قربان جائیے 
محفل میں کسی نےآپ کو  دل میں چھپا لیا ، اتنوں میں کون چور ہے ، پہچان جائیے
شاعر ۔ نواب مرزا خان داغ دھلوی    





No comments:

Post a Comment