Tuesday, 11 July 2017

جے آئی ٹی رپورٹ - 10 جولائی 2017 ۔ JIT Report on Panama Case

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا حتمی تحقیقاتی رپورٹ
پانامہ کیس (مقدمہ)

پہلا حصہ : رپورٹ کا تعارف

نوٹ 
 ذیل میں پانامہ مقدمہ کے سلسلے میں قائم شدہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے حتمی رپورٹ کا اردو میں قسط وار خلاصہ پیش کیا جارہا ہے ۔ واضح رہے کہ یہ خلاصہ رپورٹ کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے ، یہ نہ تو اس رپورٹ کی تشریح ہے اور نہ یہ کسی فریق کی حمایت یا مخالفت ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ  عام شہری اس رپورٹ کو خود پڑھ کر سمجھ سکے ۔ قارئین کرام کو اس ترجمہ و خلاصہ سے 
اختلاف کی مکمل آزادی ہے اور وہ اس میں اضافہ ، ترمیم یا غلطی کی نشاندہی کر سکتے ہیں ۔  شکریہ 
۔
پس منظر:
 سپریم کورٹ آف پاکستان نے 20 اپریل 2017 کو پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم قائم کرنے کا فیصلہ کیا ، جسکی ذمہ داری وزریراعظم نوازشریف کے بچوں کی لندن میں جائیداد کے معاملے کی چھان بین کرنا  تھا  ۔ 5 مئی 2017 کو اس ٹیم کے ارکان کا اعلان کیا گیا اور 8 مئی سے چھان بین کا عمل شروع ہوا ۔  ٹیم کو ہر 15 دن بعد سپریم کورٹ کو پیش رفت سے آگاہ کرنے اور 60 دنوں کے اندر سپریم کورٹ کو حتمی رپورٹ پیش کرنے کا پابند بنایا گیا ۔  ٹیم کے اراکین یہ ہیں۔
1۔  واجد ضیاء ۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل وفاقی تحقیقاتی ادارہ ۔ ۔ سربراہ
2۔ بریگیڈیئر (ر) محمد نعمان سعید ۔  نمائندہ آئی ایس آئی ۔ ۔ رکن
3۔ بریگیڈئیر کامران رشید ۔ نمائیندہ ملٹری اینٹیلیجنس ۔ رکن
4۔ عامر عزیز ۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان ۔ رکن
5۔ بلال رسول ، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ۔ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ۔ رکن / سیکرٹری
6 ۔ عرفان نعیم منگی ۔ ڈائریکٹر قومی احتساب ادارہ ۔ ۔ رکن


واجد ضیاء ۔ سربراہ ، جے آئی ٹی


تحقیقاتی رپورٹ کا دائرہ کار اور کلیدی توجہ

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ذمے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تلاش کرنا تھا ۔
1۔ گلف سٹیل ملز کا قیام کیسے عمل میں آیا ؛
2۔ یہ کمپنی کن وجوہات کی وجہ سے فروخت کی گئی ؛
3۔ اس کے بقیاجات کیسے منتقل ہوئے ؛
4۔ اس کی فروخت کا معاملہ کہاں ختم ہوتا ہے ؛
5۔ سرمایہ  جدہ ، قطر اور لندن تک کیسے پہنچا ۔
6 ۔ نوے کی دہائی میں حسن نواز اور حسین نواز نے کم عمری میں کسطرح فلیٹوں کا سودا کیا ۔؛
7۔ قطری شہزادے کے خط کی اصلیت کیا ہے ؛
8۔ قطری کمپنی کے حصص سے کسطرح فلیٹ خریدے گئے ؛
9۔ نلسن اور نسکول کمپنیوں کا اصل مالک کون ہے ؛
10- ہل مٹلز کسطرح قایم ہوئی ؛
11- فلیگ شپ انوسٹمنٹ کمپنی اور دیگر کمپنیوں کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا ؛
12 ۔ ان کمپنیوں کے روزمرہ خرچہ کے لیے پیسہ کہاں سے آیا ؛ اور
13 ۔ حسین نواز نے کہاں سے  نواز شریف کو لاکھوں روپے تحفے میں دئیے ۔
 ۔
اس کے علاوہ مدعیان علیہ کے دیگر اثاثے اور لندن میں جائیداد کی چھان بین بھی کرنا تھا ۔ جے آئی ٹی نے حتمی رپورٹ 12 جلدوں میں 10 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ میں جمع کرادی ۔ یہ رپورٹ کل 275 صفحات پر مشتمل ہے ۔ ( پہلی جلد میں تحقیقات کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے ۔)

نواز شریف اور اس کے بچے 

تحقیقات کا طریقہ کار
سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے 13 (جمع 2) سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے گواہان و  ثبوت ، واقعات کی تصدیق ، بیرون ممالک کے اداروں سے مدد ، دستاویزات کا معائنہ اور ماہرین کی خدمات  حاصل کی  گئیں ۔

ابتدائی منصوبہ بندی
پہلے اجلاس میں ارکان ، اشیاء اور معلومات کی حفاظت ، جے آئی ٹی کی حکومتی اثر سے آزادی ، بیرون ملک معاملات کے لیے ادارہ کا انتخاب اور مختلف محکموں میں ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے فیصلے ہوئے ۔

مقاصد کے حصول کے لیے عمل
کُل 28 گواہ طلب کئے گئے ، جس میں مندرجہ ذیل گواہ 5 پیش نہیں ہوئے ۔ حماد بن جاسم (قطری شہزادہ) ، شیخ سعید (نوازشریف کا امریکی دوست) ، موسیٰ غنی (اسحاق ڈار کا رشتہ دار) ، کاشف مسعود قاضی اور  شیزی نقوی ۔ اس کے علاوہ دو گواہان جاوید کیانی اور سعید احمد کے فیصلہ آنے تک بیرون ملک جانے پر پابندی لگادی گئی ۔

ریکارڈ اور دستاویزات کا تجزیہ
گواہان نے جے آئی ٹی کے سامنے چند کاغذات پیش کئے ۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ ، سٹیٹ بینک، ٹیکس ، ایف بی آر ، نیب ، ایف ائی اے ، الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بھی ریکارڈ حاصل کیا گیا ۔ ان اداروں نے اکثر ریکارڈ حصوں میں مہیا کیا اور اس سلسلے میں  ایف بی آر کو کوتاہی کا خصوصی ذکر درج ہے ۔
بیرون ممالک میں برطانیہ کے 2 اداروں ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، سویٹزرلینڈ اور لکزمبرگ میں ایک ایک ادارے سے ایک بار یا کئی بار رابطہ قائم کیا گیا ۔ تین وکالتی اداروں ( 2 برطانیہ میں موجود ) کے علاوہ تحریر کے ماہر کی خدمات بھی حاصل کی گئیں ۔ جے آئی ٹی کے دو ارکان نے متحدہ عرب امارات کا دورہ بھی کیا ۔ پاکستانی اداروں کے افسران نے جان کی خطرے کے باوجود تحقیقات میں مدد کی ۔
جے آئی ٹی کے اراکین کے دستخط کے ساتھ رپورٹ سپریم کورٹ کو 10 جولائی کو پیش کی گئی ۔ ٹیم کے سربراہ واجد ضیاء نے ابتداء میں نوٹ تحریر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا ان پر اعتماد کا شکریہ ادا 
کیا ہے ۔

(جاری ہے ) 














No comments:

Post a Comment