مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا حتمی تحقیقاتی
رپورٹ
پانامہ کیس (مقدمہ)
پہلا حصہ : رپورٹ کا تعارف
نوٹ
ذیل میں
پانامہ مقدمہ کے سلسلے میں قائم شدہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے حتمی رپورٹ کا اردو
میں قسط وار خلاصہ پیش کیا جارہا ہے ۔ واضح رہے کہ یہ خلاصہ رپورٹ کو سمجھنے کی ایک
کوشش ہے ، یہ نہ تو اس رپورٹ کی تشریح ہے اور نہ یہ کسی فریق کی حمایت یا مخالفت ہے
۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ عام شہری اس رپورٹ
کو خود پڑھ کر سمجھ سکے ۔ قارئین کرام کو اس ترجمہ و خلاصہ سے
اختلاف کی مکمل
آزادی ہے اور وہ اس میں اضافہ ، ترمیم یا غلطی کی نشاندہی کر سکتے ہیں ۔ شکریہ
۔
پس منظر:
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 20
اپریل 2017 کو پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم قائم کرنے کا فیصلہ کیا ، جسکی ذمہ
داری وزریراعظم نوازشریف کے بچوں کی لندن میں جائیداد کے معاملے کی چھان بین کرنا تھا ۔ 5
مئی 2017 کو اس ٹیم کے ارکان کا اعلان کیا گیا اور 8 مئی سے چھان بین کا عمل شروع
ہوا ۔ ٹیم کو ہر 15 دن بعد سپریم کورٹ کو
پیش رفت سے آگاہ کرنے اور 60 دنوں کے اندر سپریم کورٹ کو حتمی رپورٹ پیش کرنے کا
پابند بنایا گیا ۔ ٹیم کے اراکین یہ ہیں۔
1۔ واجد ضیاء ۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل وفاقی
تحقیقاتی ادارہ ۔ ۔ سربراہ
2۔ بریگیڈیئر (ر) محمد نعمان سعید
۔ نمائندہ آئی ایس آئی ۔ ۔ رکن
3۔ بریگیڈئیر کامران رشید ۔
نمائیندہ ملٹری اینٹیلیجنس ۔ رکن
4۔ عامر عزیز ۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر
۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان ۔ رکن
5۔ بلال رسول ، ایگزیکٹیو
ڈائریکٹر ۔ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ۔ رکن / سیکرٹری
6 ۔ عرفان نعیم منگی ۔ ڈائریکٹر
قومی احتساب ادارہ ۔ ۔ رکن
واجد ضیاء ۔ سربراہ ، جے آئی ٹی |
تحقیقاتی رپورٹ کا دائرہ کار اور
کلیدی توجہ
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ذمے مندرجہ
ذیل سوالات کے جوابات تلاش کرنا تھا ۔
1۔ گلف سٹیل ملز کا قیام کیسے عمل میں آیا ؛
2۔ یہ کمپنی کن وجوہات کی وجہ سے فروخت کی گئی ؛
3۔ اس کے بقیاجات کیسے منتقل ہوئے ؛
4۔ اس کی فروخت کا معاملہ کہاں ختم ہوتا ہے ؛
5۔ سرمایہ جدہ ، قطر اور لندن تک کیسے پہنچا ۔
6 ۔ نوے کی دہائی میں حسن نواز اور حسین نواز نے
کم عمری میں کسطرح فلیٹوں کا سودا کیا ۔؛
7۔ قطری شہزادے کے خط کی اصلیت کیا ہے ؛
8۔ قطری کمپنی کے حصص سے کسطرح فلیٹ خریدے گئے ؛
9۔ نلسن اور نسکول کمپنیوں کا اصل مالک کون ہے ؛
10- ہل مٹلز کسطرح قایم ہوئی ؛
11- فلیگ شپ انوسٹمنٹ کمپنی اور دیگر کمپنیوں کے
لیے سرمایہ کہاں سے آیا ؛
12 ۔ ان کمپنیوں کے روزمرہ خرچہ کے لیے پیسہ
کہاں سے آیا ؛ اور
13 ۔ حسین نواز نے کہاں سے نواز شریف کو لاکھوں روپے تحفے میں دئیے ۔
۔
اس کے علاوہ مدعیان علیہ کے دیگر اثاثے
اور لندن میں جائیداد کی چھان بین بھی کرنا تھا ۔ جے آئی ٹی نے حتمی رپورٹ 12
جلدوں میں 10 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ میں جمع کرادی ۔ یہ رپورٹ کل 275 صفحات پر
مشتمل ہے ۔ ( پہلی جلد میں تحقیقات کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے ۔)
نواز شریف اور اس کے بچے |
تحقیقات کا طریقہ کار
سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے
اٹھائے گئے 13 (جمع 2) سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے گواہان و ثبوت ، واقعات کی تصدیق ، بیرون ممالک کے اداروں
سے مدد ، دستاویزات کا معائنہ اور ماہرین کی خدمات حاصل کی
گئیں ۔
ابتدائی منصوبہ بندی
پہلے اجلاس میں ارکان ، اشیاء اور
معلومات کی حفاظت ، جے آئی ٹی کی حکومتی اثر سے آزادی ، بیرون ملک معاملات کے لیے
ادارہ کا انتخاب اور مختلف محکموں میں ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے فیصلے ہوئے ۔
مقاصد کے حصول کے لیے عمل
کُل 28 گواہ طلب کئے گئے ، جس میں
مندرجہ ذیل گواہ 5 پیش نہیں ہوئے ۔ حماد بن جاسم (قطری شہزادہ) ، شیخ سعید (نوازشریف
کا امریکی دوست) ، موسیٰ غنی (اسحاق ڈار کا رشتہ دار) ، کاشف مسعود قاضی اور شیزی نقوی ۔ اس کے علاوہ دو گواہان جاوید کیانی
اور سعید احمد کے فیصلہ آنے تک بیرون ملک جانے پر پابندی لگادی گئی ۔
ریکارڈ اور دستاویزات کا تجزیہ
گواہان نے جے آئی ٹی کے سامنے چند
کاغذات پیش کئے ۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ ، سٹیٹ بینک، ٹیکس ، ایف بی آر ، نیب ،
ایف ائی اے ، الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بھی ریکارڈ حاصل کیا گیا ۔ ان اداروں نے
اکثر ریکارڈ حصوں میں مہیا کیا اور اس سلسلے میں ایف بی آر کو کوتاہی کا خصوصی ذکر درج ہے ۔
بیرون ممالک میں برطانیہ کے 2 اداروں
، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، سویٹزرلینڈ اور لکزمبرگ میں ایک ایک ادارے سے
ایک بار یا کئی بار رابطہ قائم کیا گیا ۔ تین وکالتی اداروں ( 2 برطانیہ میں موجود
) کے علاوہ تحریر کے ماہر کی خدمات بھی حاصل کی گئیں ۔ جے آئی ٹی کے دو ارکان نے
متحدہ عرب امارات کا دورہ بھی کیا ۔ پاکستانی اداروں کے افسران نے جان کی خطرے کے
باوجود تحقیقات میں مدد کی ۔
جے آئی ٹی کے اراکین کے دستخط کے
ساتھ رپورٹ سپریم کورٹ کو 10 جولائی کو پیش کی گئی ۔ ٹیم کے سربراہ واجد ضیاء نے
ابتداء میں نوٹ تحریر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا ان پر اعتماد کا شکریہ ادا
کیا ہے ۔
(جاری ہے )
No comments:
Post a Comment