آل انڈیا مسلم
لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس قائداعظم محمد علی جناح کی زیرصدارت 22 مارچ سے 24
مارچ 1940 تک لاہور میں منعقد ہوا ۔ 1940 کی مشہور قرارداد لاہوراسی اجلاس میں
منظور ہوئی ۔ اجلاس کے پہلے روز نواب سر شاہ نواز ممدوٹ کے استقبالیہ کے بعد محمد
علی جناح نے ایک طویل اور فالبدیہہ خطبہ دیا ۔ اجلاس کے دوسرے دن یعنی 23 مارچ
کو شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق نے تاریخی
قرارداد لاہور پیش کی جسے آگے جاکر کر قرارداد پاکستان بننے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔
اس قرارداد کا موسودہ پنجاب کے یونینسٹ وزیراعلیٰ سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا ( یونی نیسٹ پارٹی اُس وقت مسلم لیگ میں ضم ہوچکی تھی )۔ اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ " کوی بھی دستوری خاکہ مسلمانوں کے اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگا جب تک ہندوستان کے جغرافیائی اعتبار سے متصل و ملحق اکائیوں کی علاقائی حدبندی کرکے ان کے آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ہیں ، جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے ، ان کو 'آزاد ریاستوں' میں گروہ بند کردیا جائے اور اس طرح تشکیل پانے والی اکائیاں مکمل آزاد اور خود مختار ہونگی " ۔
اس قرارداد کا موسودہ پنجاب کے یونینسٹ وزیراعلیٰ سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا ( یونی نیسٹ پارٹی اُس وقت مسلم لیگ میں ضم ہوچکی تھی )۔ اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ " کوی بھی دستوری خاکہ مسلمانوں کے اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگا جب تک ہندوستان کے جغرافیائی اعتبار سے متصل و ملحق اکائیوں کی علاقائی حدبندی کرکے ان کے آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ہیں ، جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے ، ان کو 'آزاد ریاستوں' میں گروہ بند کردیا جائے اور اس طرح تشکیل پانے والی اکائیاں مکمل آزاد اور خود مختار ہونگی " ۔
آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی |
انگریزی زبان میں تحریر کئے گئے اس قرارداد کا
اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے پیش کیا ۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آئے
ہوئے مسلم لیگی رہنماؤں نے اس قرارداد کی
حمایت میں تقاریر کیں ۔ مسلم لیگ کا یہ اجلاس لاہور میں شاہی مسجد کے بالمقابل واقع منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں منعقد ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد حکومت نے اقبال پارک میں ایک پُرشکوہ مینار 'یادگار پاکستان' کے نام سے تعمیر کیا ۔
قرارداد لاہور کے متعلق تاریخی غلط فہمیاں
- تاریخ میں قرارداد لاہور سے معتلق کئی غلط فہمیاں پیدا کی گئیں ہیں اور کئی مصنفین ان مغالطوں کو آج تک درست کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان مغالطوں میں سر فہرست قرارداد کا نام ہے۔ اس قرارداد کا نام قرارداد لاہور ہے مگر قرارداد منظور ہونے کے بعد اس کو قرارداد پاکستان کہا گیا۔ اور آج اس قرارداد کا اپنا اصل نام تاریخ کی کتابوں سے ناپید ہو چکا ہے۔ اس قرارداد کے متن میں کہیں بھی پاکستان کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے خودمختار وطن کے لیے سب سے پہلے پاکستان کا نام 1933 میں چودھری رحمت علی نے استعمال کیا تھا۔ یقینی بات ہے کہ مسلم لیگی زعماء قرارداد لاہور کے وقت اس نام سے واقف تھے لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی قرارداد کے لیے قرارداد پاکستان کا نام رکھنا مناسب نہیں سمجھا۔
- یہ قراداد 23 مارچ کو پیش ہوئی ا ور اگلے روز یعنی 24 مارچ 1940 کو منظور ہوئی۔ لیک پاکستان کی ساری درسی (اور کچھ سرکاری مؤرخوں کی تحریروں ) میں اس قرارداد کی منظوری کی تاریخ 23 مارچ درج ہے ۔ جو کہ سراسر غلط ہے۔ مثال کے طور پر قرارداد مقاصد 7 مارچ 1949 کو پیش ہوئی اور 5 دن بعد 12 مارچ کو منظور ہوئی اور آج قراردادِ مقاصد کے ساتھ اس کی منظوری کی تاریخ یعنی 12 مارچ جُڑی ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح قرارداد لاہور بھی 24 مارچ کو منظور ہوئی اور اسی تاریخ کی اہمیت ہونی چاہئے۔
- پاکستان میں 23 مارچ کو ہر سال یومِ پاکستان کے نام سے منایا جاتا ہے اور اس کی مناسبت 1940 کی قرارداد لاہور سی کی جاتی ہے۔ اصل میں یہ تقریبات یومِ جمہوریہ کے سلسلے میں ہیں جو 23 مارچ 1956 کو آئین کے نفاذ کی خوشی میں اگلے دو سالوں تک منائی گئیں، مگر ایوب خان کی فوجی حکومت نے آئین کو ختم کرنے کے ساتھ 23 مارچ کی تقریبات کا تعلق بھی آئین کے نفاذ سے ہٹا کر قرارداد لاہور سے جوڑ دیا۔ ایوب خان کی تاریخ سے دھوکہ دھی کو آج تک درست نہیں کیا گیا۔ ( مزید تفصیل کے لیے نیچے لنک دیا ہوا ہے)۔
- hhttp://poshidahaqiqat.blogspot.com/2015/03/23-reality-of-pakistan-day.html
- قرارداد لاہور میں ایک سے زائد ریاستوں کی تشکیل کا ذکر موجود تھا اور جب 1941 میں یہ قرارداد مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بنی تب بھی اس کا مطالبہ دو یا دو سے زیادہ ریاستیں تھا۔ اپریل 1946 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قومی و صوبائی منتخب شدہ اراکین کا سہ روزہ کنونشن دہلی میں معنقد ہوا۔ اس اجلاس میں قراداد لاہور میں ترمیم کرکے ریاستوں کی جگہ ایک ریاست کا مطالبہ کیا گیا۔ لیکن سوال یہ کہ آیا منتخب اراکین کا کنونشن قرارداد لاہور (جو بعد میں مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بھی بنا) میں تبدیلی کا اختیار رکھتی تھی ؟ آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کے مطابق جو قراداد یا فیصلہ کسی اجلاس میں منظور ہوجائے تو ایسے فیصلوں میں تبدیلی یا منسوخی صرف آل انڈیا مسلم لیگ کے کسی دوسرے اجلاس میں ہوسکتی ہے۔ اسی طرح جن لوگوں(رہنما و عوام) نے قرارداد کی منظوری کے وقت اس کا ساتھ کئی ریاستوں کے مطالبے کی وجہ سے دیا تھا ان کی مرضی کے بغیر ترمیم کی اخلاقی حیثیت کمزور ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے مشہور قانون دان سید شریف الدین پیرزادہ کے مطابق قرارداد لاہور میں دراصل متحدہ ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی بات کی گئی تھی، جسے بعدازاں اصلیت سے ہٹا کر نئے توجیہات اور مطالب پہنا کر "قراردادِ پاکستان" کا لبادہ اوڑھا دیا گیا۔
- اس قرارداد میں میں موجود ریاستوں کو اندرونی طور سے خودمختار بنانے کا مطالبہ کیا گیاتھا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے قیام کے بعد صوبوں کو خود مختاری دینے سے اجتناب کیا گیا جس کی وجہ سے 1971 میں مشرقی پاکستان ہم سے جُدا ہو کر الگ ملک بنگلہ دیش بن گیا اورآج بھی چھوٹے صوبے اختیارات کی کمی کی وجہ سے ناراضگی کا شکار ہیں۔ قائداعظم کی وفات کے چند ماہ بعد ہی آئین سازی کے لیے لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد کے عنوان سے نئی ترجیحات طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریاست پاکستان 1940 کی قرارداد لاہور کو بنیادی دستاویز قرار دیتی مگر اس کی بجائے بنیادی اصول آئین بنانے والی کمیٹی نے مضبوط مرکز کے گرد حکمرانی کا پہیہ ایسے گھمایا کہ جس نے مختلف قسم کے تنازعات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا۔ مضبوط مرکز کا فلسفہ 1940 کی قرارداد کے خلاف پہلا حملہ تھا کہ جس کے لیے قرارداد مقاصد کو استعمال کیا گیا۔ قرارداد لاہور پر دوسرا حملہ ون یونٹ کی تشکیل تھی جسے 1956 کے آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ حتیٰ کہ 1956 کے آئین میں صوبوں کو یکساں نمائندگی دینے کے لیے سینٹ کا ادارہ بھی نہیں تھا۔ قیام پاکستان کے صرف 11 سال بعد ملک میں مارشل لا لگا کر صوبوں کے اختیارات کم کئے گئے۔ ایوب خان حکومت کے خاتمے پر یحییٰ خان کا مارشل لا آن دھمکا ۔ 16 دسمبر 1971 کو مرکزیت پسندی کی پالیسی کا انجام سامنے آیا مگر حکمرانوں اور تاریخدانوں نے اس سے سبق سیکھنے کی بجائے سارا الزام یحییٰ خان کی شراب نوشی، بنگالیوں کی غداری اور بھٹو صاحب کی مکاری پر دھر دیا۔
ضمیمہ جات
مولوی فضل الحق
قرار داد لاہور کے پیش کنندہ شیربنگال مولوی ابولقاسم فضل الحق 1873 کو مشرقی پاکستان میں پیدا
ہوئے۔ آپ اپنی سیاسی زندگی میں کئی ایک اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ آپ کو قرارداد
لاہور کی منظوری کے ایک سال بعد آل انڈیا مسلم لیگ سے نکال دیا گیا۔ آپ نے 1962 میں وفات پائی ۔
چودھری رحمت علی
چودھری رحمت علی نے 1933 میں سب سے پہلے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے خودمختار وطن کے لیے پاکستان کا نام تجویز کیا۔ لفظ پاکستان کے خالق کو لاہور کے اس تاریخی اجلاس میں شرکت کرنے نہیں دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد جب آپ بن بلائے مہمان کی صورت میں پاکستان آئے تو لیاقت علی خان کی حکومت نے آپ پر دباؤ ڈال کر واپس لندن جانے مجبورکردیا۔ آپ نے 1951 میں وفات پائی اور کیمبرج میں امانتاً دفن ہوئے۔ اس عظیم دانشور اور سیاسی مدبرکے ساتھ پاکستانی حکومت، سیاستدانوں اور تاریخدانوں کا رویہ انتہائی معتصبانہ رہا ہے۔ چند سال پہلے ایک تجویز چلی تھی کہ چودھری رحمت علی کا جسدِ مبارک پاکستان لا کر دفن کیا جائے۔ لیکن اناپرست ، خودغرض اور بغض سے بھرے سیاستدانوں نے دنیا کے سب سے پہلے پاکستانی کو پاک سرزمین میں دفن ہونے نہیں دیا۔
یادگار
پاکستان
یادگارپاکستان
کی تعمیر کا فیصلہ 1960 میں ہوا مگر تعمیری کام دو سال بعد شروع ہوا۔ مینار کی تعمیر کا کام پہلے دو سالوں میں فنڈز کی کمی کی وجہ سے کافی سست رفتاری کا شکار
رہا تاہم 1965 میں صوبائی حکومت نے اس قومی یادگار کے قیام کے لیے سینما اور ریس ٹکٹ پر ٹیکس لگا کر فنڈز
کی کمی کا مسئلہ حل کیا ۔ 22 مارچ 1968 کو اس 196 فٹ بلند مینار کی تعمیر مکمل ہوئی۔
اللہ تعالیٰ کے 99 صفاتی نام ، قرآن پاک کی آیات مبارک ، قائداعظم کے ارشادات ، قرارداد لاہور کا متن ، علامہ اقبال کے چند اشعار اور پاکستان کا قومی ترانہ سفید سنگ مرمر پر کندہ کیا گیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے 99 صفاتی نام ، قرآن پاک کی آیات مبارک ، قائداعظم کے ارشادات ، قرارداد لاہور کا متن ، علامہ اقبال کے چند اشعار اور پاکستان کا قومی ترانہ سفید سنگ مرمر پر کندہ کیا گیا ہے ۔
اقبال پارک لاہور میں قرارداد لاہور کی یاد میں تعمیر کردہ مینار پاکستان |
یونینیسٹ پارٹی
پنجاب یونی نیسٹ پارٹی 1927 میں قائم ہوئ۔ سر محمد اقبال ، سر فضل حسین، ملک فیروز خان نون، سر رحیم بخش ، چودھری ظفر اللہ خان، سردار سکندر حیات خان، شیخ عبدالقادر اور نواب شاہ نواز خان ممدوٹ اس کے بانیان میں شامل تھے۔ 1937 میں سکندر حیات اور محمد علی جناح کے درمیان ایک معاہدے کے تحت یونی نیسٹ پارٹی آل انڈیا مسلم لیگ میں ضم ہوگئی۔ اس پارٹی کے رہنماؤں نے تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کا ساتھ دیا لیکن جب خضر حیات کو مسلم لیگ سے نکالا گیا تو یونی نیسٹ پارٹی نے مسلم لیگ سے راستے جدا کردئے۔
Text of the Lahore Resolution
"Resolved
that it is the considered view of this session of the All India Muslim League
that no constitutional plan would be workable in this country or acceptable to
the Muslims unless it is designed on the following basic principles, viz., that
geographically contiguous units are demarcated into regions which
should be so constituted, with such territorial readjustments as may be
necessary, that the areas in which the Muslims are numerically in a
majority, as in the North-Western and Eastern zones of India, should be
grouped to constitute 'Independent States' in which the constituent
units shall be autonomous and sovereign". (The italics have been added to show the use of
ambiguous geographical terms).
مشہور مؤرخ جناب کے کےعزیز کے مطابق قرارداد لاہور کے متن میں کئی خامیاں پائی جاتی ہیں۔
قرارداد میں پانچ مختلف جغرافیائی اصطلاحات بغیر کسی تشریح کے استعمال کی گئی ہیں
۔ آزاد ریاستوں کو واوین (' ') میں غیر
ضروری طور سے بند کیا گیا ہے ، کیونکہ ریاست تو ہوتی ہی آزاد ہے۔ آخری جملے میں
"ریاستیں آزاد اور خود مختار ہوں
گی" میں 'ہوں گی' کے الفاظ شامل کرکے اس قرارداد کو مطالبے کی بجائے لازم اور قطعی بنادیا۔ وفاقی حکومت کا ذکر کئے
بغیر خود مختار اور حاکمیت والی اکائیوں کس مطالبہ کیا گیا ہے۔ مزید برآں آزاد
ریاستوں کے مطالبے میں ریاستوں کی تعداد کا ذکر نہیں ہے۔
حرفِ آخر
تاریخی حقائق
کو جھٹلانے اور اِن ناقابلِ تردید واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے کچھ وقت کے لیے اپنی
پسند کے نتائج تو حاصل کئے جاسکتے ہیں مگر مسائل کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ وہ وقت
جلد آئے گا کہ ہماری تاریخ چھیڑ چھاڑ اور من گھڑت واقعات سے آزاد ہوکر ایم معتبر تاریخ بن جائے گی ۔
نوٹ :
قارئین کو اس بلاگ میں تصحیح ، اعتراض اور اختلاف رائے
کی مکمل آزادی ہے۔
بهت اچهی کوشش
ReplyDelete
ReplyDeleteچودھری رحمت علی کے بارے معلومات جان کر حیرانگی هوئ.
کیا واجہ هوگی کہ پاکستان سے ملک بدر کرنا پڑا.
آپکا کام علمی هے...جاری رکهیں..
هماری دعائیں اپکے ساته هیں.
سکول میں پڑهائ جانی والی تاریخ پاکستان تو اتنی معتبر نهیں..اس پر کچه لوگوں کا اتفاق هے...مگر ساته ساته اس بات پهر بهی نظر رکهنی پڑتی هے کہ اسی باتوں کو مشهور اور معروف کیا جاتا هے جو قوم کو باعث فخر هو.اور ان سے قوم کو یکجا کیا جا سکے...
کچه عرصہ پہلے حامد میر نے پاکستانی ترانہ پر کچه پروگرام اور حقائیق پیش کیے تهے...لیکن انکو کچه پزیرائ نہ مل سکی..
لیکن بقول ولی خان...
حقائق حقائق هیں
good one
ReplyDelete