Tuesday, 28 April 2015

کیا قرارداد مقاصد میں پاکستان کےسیاسی مسائل کا حل موجود ہے؟ Is Objectives Resolution the key to political problems of Pakistan ? (Urdu)


قیام پاکستان کے بعد برطانوی پارلیمنٹ کا بنایا ہوا 'حکومت ہند کا قانون مجریہ  1935' پاکستان کا عارضی آئین بنا ۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے ذمے پاکستان کے لیے آئین بنانے کا کام تھا۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی ان اراکین پر مشتمل تھی جو غیر منقسم ہندوستان میں  1946 کے انتخابات میں اُن علاقوں سے منتخب ہوئے تھے جو بعد میں پاکستان کی جغرافیائی حدود میں شامل ہوئے۔ اس کے علاوہ کچھ مسلم اراکین ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ اگرچہ ان اراکین کی کُل تعداد 69 بنتی  تھی  لیکن  گورنر جنرل محمدعلی جناح نے قبائل اور ریاستوں کو نمائندگی دینے کے لیے اس کی تعداد میں  10 اراکین کا اضافہ کیا۔  کئی وجوہات کی بنا پر نشستوں پر موجود اراکین کی حقیقی تعداد اصل سے کم ہی رہی  ۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں مسلم لیگ  برسر اقتدار پارٹی تھی جبکہ پاکستان نیشنل کانگریس  کے  11  اراکین  کے ساتھ ساتھ خان عبدالغفار خان اور مولوی فضل الحق حزب مخالف میں شامل تھے۔ اسمبلی کے ذمے مملکت پاکستان کے لیے آئین تشکیل دینا اور ملک کے لیے قانون سازی کرنا دونوں امور تھے۔ پہلی دستور ساز اسمبلی کی پانچ سالہ مدت 1951 میں ختم ہورہی تھی ۔  مگر یہ اسمبلی  اپنی سات سالہ زنگی میں آئین بنانے میں ناکام رہی حتیٰ کہ 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے اسے تھوڑ دیا۔
لیاقت علی خان دستور ساز اسمبلی سے خظاب کرتے ہوئے
 مارچ 1949 میں اس اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کرکے آئین سازی کے لیے بنیادی خاکہ ترتیب دے دیا۔ دستور ساز اسمبلی کے رکن مولانا شبیر احمد عثمانی نے اس قرارداد کا مسودہ تیار کیا اور  وزیراعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خان نے 7 مارچ 1949 کو اسے  دستور ساز اسمبلی کے سامنے پیش کیا۔ یہ قرارداد کافی بحث و مباحثے کے بعد 12 مارچ 1949 کو منظور ہوئی۔  قائد اعظم کے دستِ راست لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد پیش کرتے ہوئے اس کے حق میں بہت سے دلائے دئے۔  بقولِ آپ ک یہ قرارداد ان خالص اصولوں پر مشتمل ہے ، جن پر پاکستان کا دستور اساسی مبنی ہوگا ۔ اس قرارداد کے نکات کا خلاصہ ذیل میں دیا گیاہے۔
قرارداد مقاصد
اللہ تبارک تعالیٰ ہی پوری کائنات واحد مالک  ہے اور پاکستان کے عوام کے پاس اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہے؛
مجلس دستور ساز  فیصلہ کرتی ہے کہ مملکت پاکستان کے لئے ایک دستور مرتب کیا جائے۔
جس کی رُو سے مملکت اپنے تمام اختیارات و حقوق حکمرانی کو عوام  کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی؛
اسلام کے پیش کردہ جمہوریت ، آزادی ، مساوات ، رواداری اور معاشرتی انصاف  کے اصولوں پر پوری طرح عمل کیا جائے گا ؛
(پاکستان کے) مسلمانوں کو اس قابل بنائے جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن اور سنت میں درج اسلامی تعلیمات کے مطابق ترتیب دے سکیں ۔
جس میں تمام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ   اور  اُن کو اپنے مذہب کی پیروری کرنے اور اپنی ثقافت کو فورغ دینے کے لیے پوری آزادی ہوگی۔
پاکستان ایک وفاقی ریاست ہوگی ۔ مقرر کردہ اختیارات کے تحت تمام صوبوں  کو  خود مختاری حاصل ہوگی۔
عوام کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی ۔ اقلیتوں اور پسماندہ طبقوں کے جائز مفادات کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا ؛
جس کی رو سے عدلیہ  کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی ؛
وفاقیہ کے علاقوں کی سلامتی و  آزادی اور  اس کے خشکی ، تری اور فضا کے جملہ حقوق کا تحفظ کیا جائے گا؛
جس کی رُو سے اہل پاکستان فلاح و بہبود حاصل کرسکیں  اور  اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاص کرسکیں اور امن عالم اور بنی نوع انسان کی ترقی و خوشحالی کے لیے پوری کوششیں کرسکیں۔
 پاکستان کے پہلے وزیراعظم  نواب زادہ لیاقت علی خان 
 پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائد اعظم کے رفیق خاص لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد کا مسودہ دستورساز اسمبلی میں  پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس لئے حاصل کیا گیا کہ ہندوستان کے مسلمان اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے خواہش مند تھے۔ آپ نے قرارداد مقاصد کے مندرجات جیسے اسلامی جمہوریت، اقلیتوں کے حقوق ، اسلامی ریاست کے مندرجات وفاقی طرزِ حکومت ، بنیادی انسانی حقوق وغیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور قرارداد کے حق میں پُر زور دلائل دیے ۔ قرارداد کی منظوری پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ یہ  پاکستان کی تاریخ میں  آزادی کے حصول  کے بعد دوسرا اہم واقعہ ہے ۔ قرارداد مقاصد منظور ہونے کے بعد حکومت پاکستان نے آئین کے بنیادی اصولوں کے لیے کمیٹی  (Basic Principle Committee ) بھی قائم کی ۔
اپوزیشن لیڈر جناب چھٹو پھڈائے نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے قرارداد مقاصد کے مختلف نکات پر بھر پور  تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی کا یہ اجلاس سالانہ بجٹ پر بحث کے لیے مختص تھا اور اجلاس بلاتے ہوئے ممبران کو کسی قرارداد کے پیش ہونے کا نہیں بتایا گیا تھا ۔ انھوں نے مزید کہا کہ حاضر ممبران کی تعداد انتہائی کم ہے اور اتنے اہم فیصلے کے لیے زیادہ سے زیادہ ممبران کا موجود ہونا ضروری ہے۔
مشرقی پاکستان سے پاکستان نیشنل کانگریس کے رکن نے تجویز پیش کی کہ ریاست اور اس سے شہریوں کا تعلق سیاست کا حصہ ہے جبکہ انسان اور خدا کا رشتہ  مذہب کے زمرے میں آتا ہے، سیاست کو انسانی عقل اور تجربات کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے جبکہ مذہب پر عمل کرنا ایمان کا حصہ ہوتا ہے لہٰذا قرارداد مقاصد کے پہلے پیراگراف کو نظر انداز  کیا جائے۔ انہوں نے مذید کہا کہ اگر سیاست اور مذہب کو یکجا کیا گیا تو پھر سیاست پر تنقید نہیں ہوسکے گی۔
پہلے پیراگراف میں الفاظ 'مقرر کردہ حدود' پر تبصرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کے ایک ممبر نے کہا کہ ان حدود کی وضاحت قرارداد میں نہیں ہے لہٰذا یہ حدود کیا ہیں ؟ ان کی تشریح کون کرے گا اور اختلاف کی صورت میں اس کی وضاحت کون کرے گا ؟ چونکہ پاکستان میں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں اس لیے ریاست کو تمام مذاہب کا احترام کرنا چاہئے۔ پاکستان نیشنل کانگریس کے ایک دوسرے رکن نے مطالبہ کیا کہ الفاظ 'پسماندہ طبقوں' کے بعد 'مزدور طبقہ جات' بھی شامل کیا جائے ۔ اسی طرح دوسرے اپوزیشن اراکین اور مسلم لیگ کے پنجاب سے رکن میاں افتخارالدین نے قرارداد مقاصد کے متن میں کئی ترامیم پیش کیں ۔
اپوزیشن کے تمام اعتراضات کو رائے شماری کے لئے پیش کیا گیا  لیکن  ایوان نے تمام ترامیم کو  دس  کے مقابلے میں اکیس  ووٹوں سے مسترد کردیا ۔ اس کے بعد ایوان نے قرارداد مقاصد کی منظوری دے دی۔  تمام مسلمان اراکین اسمبلی (ماسوائے میاں افتخار الدین کے) سب نے فرقہ پرستی سے آزاد ہو کر اس قرارداد کا ساتھ دیا (حتیٰ کہ احمدی ممبران نے بھی اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ) ۔ دوسری طرف  حزب مخالف کے اقلیتی اراکین (جو سارے ہندو تھے) نے اس
مولان شبیر احمد عثمانی رکن دستور ساز اسمبلی
قرارداد کی مخالفت کی۔
قرارداد مقاصد کے منظور ہونے سے ملک میں موجود سیاسی تناؤ میں  کچھ وقت کے لیے کمی آئی ۔  ایک طرف علماء کی سفارشات  کو قرارداد میں شامل کیا گیا تو دوسری طرف جمہوریت، وفاقی حکومت ، بنیادی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق جیسے نکات سے بائیں بازو کے خیالات رکھنے والے دانشوروں کو مطمئن کیا گیا۔ عام آدمی کو اسلامی فلاحی ریاست کے قیام سے تسلی ہوئی اور یوں بیرونی  خطرات  کا مقابلہ  اور اندرونی خلفشار کو رفو کرنے کی کوشش کی گئی۔  بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ کے رہنماؤں پر  آئین سازی کے لیے شدید  عوامی دباؤ تھا لیکن آئین سازی کا کام  چونکہ ان کی اہلیت اور استطاعت سے بڑھ کر مشکل ثابت ہوا  لہٰذا انہیں عوام کو مطمئن کرنے کے لیے اس قرارداد کی ضرورت پیش آئی ۔ قرارداد مقاصد کو مسلم لیگ کے رہنماؤں نے اپنی گھرتی ہوئی ساکھ  کو بحال کرنے کے لیے استعمال کیا۔
اثرات
اگرچہ قیامِ پاکستان کے  بعد مختلف گروہ اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان کا بننے والا آئین اسلامی اصولوں پر مبنی ہو مگر ان کے درمیان اسلامی آئین کے قطعی تصور اور نوعیت کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی تھی۔ علماء اور سیاسی دانشوروں کے درمیان اسلامی آئین کی وضاحت پر تنازعہ کھڑا ہوگیا۔
اسلام پسند / دائیں بازو کے علمبردار طبقے پاکستان کے سارے مسائل کی وجہ قرارداد مقاصد اور   آئین پاکستان میں دئے ہوئے اسلامی قوانین پر عمل درآمد میں ناکامی کو گردانتے ہیں جبکہ دوسری طرف سیکولر اور لبرل خیالات کے حامل دانشور قرارداد مقاصد میں موجود اسلامی دفعات کو تمام معاشرتی مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں ۔ اسلام پسند پاکستان کو حقیقت میں ایک اسلامی اور جمہوری ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جہاں امور مملکت اسلام کے زریں اصولوں کے تحت وضع ہوں اور مسلمانوں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کئے گئے ہوں۔ لبرل طبقے پاکستان کو ایک جدید ، فلاحی و جمہوری ریاست بنانا چاہتے ہیں جہاں پاکستان کے سارے عوام کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں اور یہ لوگ ریاست کے امور میں سے مذہب کے عمل دخل کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
بائیں بازو کے دانشور کہتے ہیں کہ آئین سازی کے لیے قرارداد لاہور (منظور شدہ لاہور 1940) کو بنیادی دستاویز قرار دینا چاہئے۔ قرارداد لاہور ہی اصل میں تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قرارداد لاہور ( جسے بعد میں قرارداد پاکستان کہا گیا ) میں کہیں بھی 'اسلامی ریاست' ، 'شرعی نظام'  یا 'اسلامی نظام' کی اسطلاحیں موجود نہیں ہیں۔  اس کے علاوہ قائد اعظم کی تقریر( جو انہوں نے  11 اگست 1947 کو پاکستان کے دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے موقع پر کی تھی  ) میں بھی پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے رہنمائی مل سکتی ہے۔ اس تقریر میں قائد اعظم نے بڑے واضح الفاظ میں پاکستان کو تمام مذاہب کو لوگوں کو ایک جیسے مواقع کی فراہمی کا وعدہ کیا۔
ڈاکٹر مبارک علی کے بقول ایک ہندو لیڈر نے قرارداد مقاصد پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ "ہمارے ابا و اجداد تو صدیوں سے اس ملک میں آباد ہیں  ، لیکن اس قرارداد نے تو ایک لمحے میں ہمیں اجنبی بنا کر ہمارے سارے حقوق سلب کرلیے ، جیسا ہمارا اس ملک سے کوئی تعلق ہیں نہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ مذہب کو سیاست میں دخل اندازی کی گونج مجھے مستقبل میں سنائی دے رہی ہے کہ آگے چل کر اس ملک کا کیا حشر ہوگا۔ اس موقع پر وزیر خارجہ چودھری ظفراللہ خان (احمدی) نے انہیں تسلی دی کہ اسلام میں اقلیتوں کو پورے حقوق حاصل ہیں۔
اس قرارداد کی چونکہ تمام مسلمان اراکین نے حمایت کی اور اپوزیشن پارٹی پاکستان نیشنل کانگریس نے مخالفت کی۔ پاکستان نیشنل کانگریس کے تمام اراکین ہندو تھے لہٰذا اس قرارداد نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو  مسلم اور غیر مسلم کی بنیاد پر تقسیم کر دیا۔
قرار داد مقاصد اسلام کے اصول  جمہوریت ،    حریت ،   مساوا ت ،   رواداری  اور  سماجی انصاف کی علمبردار ہے ۔ لیکن قرارداد مقاصد کے حمایتیوں اور مخالفین دونوں نے اس میں صرف اسلام کا لفظ اُچک لیا ہے  اور ان کے دلائل صرف   اس کے حق اور  مخالفت میں گردش کرنے لگے۔  جمہوریت ،  وفاقی طرز حکومت  ،اقلیتوں کے حقوق،  حریت،   مساوات ،   رواداری  و  سماجی انصاف جیسے اوصاف جن پر دونوں کا اتفاق ہے ان کو انہوں نے نظر انداز کردیا۔ وہ مذہبی طبقے جو پاکستان کے قیام کے مخالف تھے ان پر قرارداد مقاصد کی منظوری سے اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی جدوجہد کے دروازے کھل گئے۔
 1956 اور 1962 میں جب ملک کے لیے آئین بنائے گئے تو قرارداد مقاصد کو اس کے افتتاحیہ میں رکھا گیا لیکن ان دستوروں میں وفاقی طرز حکومت کے خلاف مرکزی حکومت کو اختیارات دئے گئے۔ دونوں آئینوں میں ایک ایوانی مقننہ قائم کیا گیا اور سینٹ کے قیام کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی  ۔ سینیٹ کی تخلیق کا بنیادی مقصد تمام وفاقی اکائیوں کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دینا ہوتا ہے۔  1955  میں جب مغربی پاکستان کو ون یونٹ سکیم کے تحت ایک صوبہ بنایا گیا تو یہ صوبائی خودمختاری پر حملہ تھا ۔ اسی طرح جب 1958 میں مارشل لا نافذ ہوا  تو جمہوریت کا قتل تو اصل میں قرارداد مقاصد کی موت کے برابر تھا۔ عدلیہ کی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق میں ہمارا ملک ابھی بھی بہت پیچھے ہے ۔ ملک میں آزادی کے بعد 24 سال تک انتخابات نہ کرانا قرارداد مقاصد سے رُوگردانی تھی۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ، 1973 کے آئین میں مظبوط مرکزی حکومت کا قیام اور ضیاء الحق و پرویز مشرف  کی فوجی حکومتوں کے قیام جیسے اقدامات بھی   قرارداد مقاصد کی روح کے خلاف تھے ۔  
حرف آخر
پاکستان کو ایک فلاحی ریسات بنانے کی کہانی کو اگر ٹھیک کرنا ہے تو کہانی جہاں سے خراب ہوئی تھی ،  اصلاح بھی وہی سے کرنی ہوگی ۔ ہمیں قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کی روشنی میں اس ملک کے عوام کی بلا تفریق مذہب ، نسل و جنس  حق شہریت تسلیم کرنا ہوگا ۔ قرارداد مقاصد کے ایک ایک حرف پر عمل کے ذریعے ہی پاکستان کی تعمیر ہونی ہے اور ایسا ہونا دیوار پر لکھی تحریر ہے ۔ جب تک آمریت ، جبر ، طبقاتی تقسیم ، فرقہ واریت ، تنگ نظری اور ظلم کے دروازے بند نہ ہونگے تب تک پاکستانی معاشرہ اسلامی ، پُرامن ،
بابائے قوم  قائداعظم محمد علی جناح
ترقی یافتہ ، خوشحال اور آسودگی کے راستے پر گامزن نہیں ہوسکتا ہے۔
قائداعظم کی دستور ساز اسمبلی سے پہلی تقریر ہمارے لیے مشعل راہ ہونی چاہئے۔ آپ نے 11 اگست 1947 کو مجلس دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ، " آپ آزاد ہیں ، آپ مندروں میں جائیں ، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب ، ذات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار ریاست کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ ۔  ۔ ۔ ہم سب ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو ہندو رہے گا ،  نہ مسلمان مسلمان ۔ مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ یہ ذاتی معاملہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے اور ایک مملکت کے شہری کی حیثیت سے"۔ 
قرارداد مقاصد چونکہ آئین کا باقاعدہ حصہ ہے اور اس کا متن ضمیہ میں موجود ہے۔ لہٰذا اگر کسی حالات میں آئین کو منسوخ بھی کیا جائے تو قرارداد مقاصد خود بخود منسوخ یا تحلیل نہیں ہوگی۔  دستور چونکہ زمان و مکان کا پابند ہوتا ہے اور اُبھرتے ہوئے ضروریات کے مطابق تبدیل بھی ہوتا رہتا ہے، اسی لیے پاکستان کے آئین  میں ترمیم کا طریقہ کار آرٹیکل  239  میں دیا گیا ہے جس کے تحت آرٹیکل 2 آلف (قرارداد مقاصد) بھی قابلِ  ترمیم ہے۔ اگر ہم پاکستان کے سیاسی و معاشرتی مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہتے ہوں تو ہمیں قرارداد مقاصد کو بھی زیر بحث لانا چاہئے تاکہ معلوم ہوسکے کہ آیا قرارداد مقاصد ہمارے موجودہ  مسائل کا حل پیش کرتا ہے یا نہیں۔ 
نوٹ : قارئین کو اس بلاگ میں  تصحیح ،  اعتراض  اور  اختلاف رائے  کی  مکمل آزادی ہے۔ 

Monday, 20 April 2015

Pakistan Independence Day: Unconvincing mistake (Urdu) پاکستان کا یومِ آزادی: ناقابلِ یقین غلطی

یومِ آزادی پاکستان یا یوم استقلال پاکستان ہر سال 14 اگست کو پاکستان میں آزادی کے دن کی نسبت سے منایا جاتا ہے ۔ 14 اگست کو ملک بھر میں سرکاری طور سے تعطیل ہوتی ہے۔ سرکاری و نیم سرکاری عمارات پر چراغاں ہوتا ہے اور قومی پرچم لہرایا جاتا ہے ۔  صبح کے آغاز میں وفاقی دارالحکومت میں اکتیس اور صوبائی دارالحکومتوں میں اکیس، اکیس توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔ اسلام آباد میں پرچم کشائی کی سرکاری  تقریب منعقد ہوتی ہے  ۔ قائداعظم اور علامہ محمد اقبال کے مزار پر پھول چڑھانے کے علاوہ گارڈز کی تبدیلی کی تقریب کا انعقاد ہوتا ہے۔ ملک بھر کے علاوہ بیرونِ ملک پاکستانی بھی آزادی کے حوالے سے  خصوصی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اخبارات و جرائد خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اگست کے مہینے کے شروع ہوتے ہی آزادی کے جشن کا آغاز کرتے ہیں۔


پاکستان کون سی تاریخ کو آزاد ہوا ؟

لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان واقعی 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا ہے ؟ ذیل میں اس بات کا جائزہ لیا جارہا ہے  کہ  آیا پاکستان کو آزادی اگست 1947 کی 14 تاریخ کو ملی یا 15 کو ۔ ایک طرف ہماری ساری درسی کتب میں یومِ آزادی کے لیے 14 اگست کی تاریخ  لکھی گئی ہے (لہٰذا پاکستان کے عوام یہی سمجھتے ہیں کہ 14 اگست ہی پاکستان کی آزادی کا دن ہے ) اور دوسری طرف یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان  کو آزادی 15 اگست 1947 کوملی ہے۔

قانون آزادی ہند 1947 کے پہلے صفحے کا عکس
 ہندوستان پر انگریز حکومت کا خاتمہ اور پاکستان کا قیام دونوں امور "قانون آزادی ہند 1947" کے تحت عمل میں لائے گئے۔ اس قانون کی برطانوی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد 18 جوالائی 1947 کو شاہِ برطانیہ نے توثیق کی۔ اس قانون کے تحت ہندوستان میں دو آزاد مملکتوں کا قیام ممکن ہوسکا۔ قانون آزادی ہند 1947 کے پہلے آرٹیکل کے مطابق " 15 اگست 1947 کو انڈیا میں دو آزاد ڈومینین (مملکتیں) قائم کی جائیں گی، جن کو انڈیا اور 
پاکستان کہا جائے گا 


چودہ اگست کو پاکستان کی آزادی کے سلسلے میں وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کراچی پہنچے اور پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے سامنے شاہِ انگلستان کا پیغام پڑھ کر سنایا  اور اقتدار کی منتقلی کی دستاویز پر دستخط کئے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ماؤنٹ بیٹن کو آزاد ہندوستان کا گورنر جنرل بننا تھا اس لیے وہ آزادی سے ایک دن پہلے یعنی 14 اگست کو کراچی آئے تاکہ 15 اگست کو خود دھلی میں آزاد ہندوستان سے متعلق  اختیارات سنبھال سکیں۔

چودہ اگست کو رات گیارہ بجے آل انڈیا ریڈیو کی نشریات ختم ہوگئیں اور بارہ بجے شب لاہور اور ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن سے اعلان ہوا " دس از پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس" ، جبکہ پشاور ریڈیو سٹیشن سے یہی اعلان اردو میں کیا گیا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا کہ چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب رات بارہ بجے جب کیلنڈر میں چودہ تاریخ گزر گئی اور پندرہ تاریخ شروع ہوئی تب یہ اعلان ہوا کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے۔
پندرہ اگست کی صبح پاکستان کا پرچم لہرایا گیا اور پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس سے بانیِ پاکستان کا پہلا پیغام نشر ہوا جس کے آغاز میں ہی آپ نے کہا " میں انتہائی خوشی اور  مسرت کے جذبات کے ساتھ آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ 15 اگست آزاد اور خود مختار پاکستان کا جنم دن ہے"۔  بانی پاکستان کا یہ خطاب قومی آرکائیوز اور مختلف ویب سائٹس پر دستیاب ہے۔ اس خطاب کو سننے اور پڑھنے کے لیے نیچے مختلف لنک دئے گئے ہیں )۔ 



اگر یہ دلیل موثر ہے کہ 14 اگست کو ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے کراچی میں اقتدار کی منتقلی کی دستاویز پر دستخط ہوتے ہی پاکستان وجود میں آگیا تو پھر کیا وجہ تھی کہ ایک اصول پسند محمد علی جناح نے گورنر جنرل کا حلف لینے کے لئے 15 اگست کی صبح تک انتظار کیا۔ 14 اگست کو حلف اٹھانے میں کیا قانونی و انتظامی رکاوٹ تھی؟ ایک  قانون پسند جناح نے پورے چوبیس گھنٹے تک ایک نو آزاد ملک کو بغیر حکومت کے کیسے رہنے دیا ؟ اگر اسی دلیل پر بات کی جائے تو پھر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان تو 18 جولائی 1947 کو ہی وجود میں آیا تھا جب برطانیہ کے بادشاہ نے قانون آزادی ہند (1947) پر دستخط کئے جس میں پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

پندرہ اگست کی صبح ہی بانیِ پاکستان سےلاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر عبدالرشید نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا حلف لیا اور پھر گورنر جنرل نے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان اور انکی چھ رکنی کابینہ سے حلف لیا ۔ عبدالرشید بعد میں پاکستان کے پہلے چیف جسٹس بنے۔

اس طرح 1948 میں مملکت پاکستان نے قائد اعظم کی زندگی میں آزادی کی پہلی سالگرہ 15 اگست کو منائی۔ جولائی 1948 میں ڈاک کے جو یادگاری ٹکٹ جاری ہوئے اس پر بھی (پاکستان کی آزادی کے حوالے سے) 15  اگست کی تاریخ درج ہے۔

غلط یومِ آزادی کی بنیاد
کہا جاتا ہے کہ جون 1948 میں وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی صدارت میں کابینہ کے اجلاس میں  فیصلہ کیا گیا  کہ پاکستان کا یومِ آزادی 14 اگست ہی تصور ہوگا اور اس بارے میں ایک حکم نامہ جاری کیا گیا۔ لیکن بی بی سی کے مطابق نہ تو گورنر جنرل محمد علی جناح نے اس فیصلے کی توثیق کی تھی اور نہ کسی کے پاس کابینہ کے اس فیصلے کا گزٹ ریکارڈ مومود ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نصاب میں پاکستان کی تاریخ کے متعلق اتنی غلطیاں ہیں کہ لوگ اب غلط تاریخ سے مانوس ہوگئے ہیں اور جب ان کے سامنے عقلی دلائل سے ایک تاریخی واقعہ حقائق کے مطابق بیان کیا جاتا ہے تو لوگ حق بات  کو  تسلیم کرنے کی بجائے جذباتی انداز میں پھیلائے ہوئے جھوٹ کا ساتھ دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ پشاور نے جماعت دہم کے لیے مطالعہ پاکستان کی جو کتاب چھپوائی (مطبوعہ 2010 زیر نگرانی پروفیسر ڈاکٹر فضل رحیم مروت اور پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب خان)  اس میں 14 اگست کہ اہمیت بیان کرتے ہوئے بچوں کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے اپنی آزادی کے لئے 14 اگست کی تاریخ کو اس لیے پسند کیا کہ اس روز ماہِ رمضان کی ستائیویں رات اور جمعۃ الوداع کا مبارک دن تھا۔ مگر مصنفین سے اتنی تحقیق بھی نہ ہوسکی کہ ان کو معلوم ہوتا کہ جمعۃ الوداع کا دن اور ستائسویں رمضان المبارک (1366ہجری) کا دن 15 اگست کو تھا اور چودہ اگست کو 26 رمضان المبارک تھا۔ دوسری بات یہ کہ آزادی کے دن کا انتخاب عوام کی  پسند سے نہیں تھا بلکہ یہ تو باقاعدہ برطانوی پارلیمنٹ سے منظور شدہ  آزادی ہند کے قانون میں معین کی گئی ہے۔ پاکستان میں عوام کو صرف جذباتی باتوں سے تسلی دی جاتی ہے کہ ہم انڈیا سے ایک دن پہلے آزاد ہوئے ہیں جو کہ قابل فخر بات ہے۔   لیکن نہ تو ہم انڈیا سے ایک دن پہلے آزاد ہوئے ہیں اور نہ ایک دن پہلے آزاد ہونا کوئی فخر کی بات ہے۔ قوموں کی فخر کے لیے تعلیم اور  سائنش و ٹیکنالوجی میں ترقی ، صحت اورحالت زندگی کو بہتر بنانے کے لیے سہلویات ، حکمرانوں کی جانب سے عوام کی خدمت ، بہترین قوانین اور ان کی پاسداری، ترقی کے یکساں مواقع ، پُر سکون زندگی کے لوازمات وغیرہ اہم نکات ہیں۔

حرف آخر
جہاں تک آزادی کے جشن کی بات ہے تو یہ 14 اگست یا کسی بھی متفقہ دن منائی جاسکتی ہے مگر پاکستان کی تاریخِ آزادی 15 اگست 1947 ہے اور ہمیں اپنے نصاب اور تاریخ کی کتابوں میں اس درست  تاریخ کو لکھنا اور پڑھانا چاہئے۔ 



نوٹ : قارئین کو اس بلاگ میں  تصحیح ،  اعتراض  اور  اختلاف رائے  کی  مکمل آزادی ہے۔ 

Saturday, 18 April 2015

قرار داد لاہور (1940) سے متعلق تاریخی غلط بیا نیاں .(Misleading Facts Regarding Lahore Resolution 1940; Urdu)


آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس قائداعظم محمد علی جناح کی زیرصدارت 22 مارچ سے 24 مارچ 1940 تک لاہور میں منعقد ہوا ۔ 1940 کی مشہور قرارداد لاہوراسی اجلاس میں منظور ہوئی ۔ اجلاس کے پہلے روز نواب سر شاہ نواز ممدوٹ کے استقبالیہ کے بعد محمد علی جناح نے ایک طویل اور فالبدیہہ خطبہ دیا ۔ اجلاس کے دوسرے دن یعنی 23 مارچ کو  شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق نے تاریخی قرارداد لاہور پیش کی جسے آگے جاکر کر قرارداد پاکستان بننے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔
اس قرارداد کا موسودہ پنجاب کے یونینسٹ وزیراعلیٰ سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا ( یونی نیسٹ پارٹی اُس وقت مسلم لیگ میں ضم ہوچکی تھی )۔ اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ " کوی بھی دستوری خاکہ مسلمانوں کے اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگا جب تک ہندوستان کے جغرافیائی اعتبار سے متصل و ملحق اکائیوں کی علاقائی حدبندی کرکے ان کے آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ہیں ، جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے ، ان کو 'آزاد ریاستوں' میں گروہ بند کردیا جائے اور اس طرح تشکیل پانے والی اکائیاں مکمل آزاد اور خود مختار ہونگی " ۔ 
آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی

انگریزی زبان میں تحریر کئے گئے اس قرارداد کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے پیش کیا ۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے  مسلم لیگی رہنماؤں نے اس قرارداد کی حمایت میں تقاریر کیں ۔ مسلم لیگ کا یہ اجلاس لاہور میں شاہی مسجد کے بالمقابل واقع منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں منعقد ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد حکومت نے اقبال پارک میں ایک پُرشکوہ مینار 'یادگار پاکستان' کے نام سے تعمیر کیا ۔ 


قرارداد لاہور کے متعلق  تاریخی غلط فہمیاں

  • تاریخ میں قرارداد لاہور سے معتلق کئی غلط فہمیاں پیدا کی گئیں ہیں اور کئی  مصنفین ان مغالطوں کو آج تک درست کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان مغالطوں میں سر فہرست قرارداد کا نام ہے۔ اس قرارداد کا نام قرارداد لاہور ہے مگر قرارداد منظور ہونے کے بعد اس کو قرارداد پاکستان کہا گیا۔ اور آج اس قرارداد کا اپنا  اصل نام تاریخ کی کتابوں سے ناپید ہو چکا ہے۔ اس قرارداد کے متن میں کہیں بھی پاکستان کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے خودمختار وطن کے لیے سب سے پہلے پاکستان  کا نام 1933 میں  چودھری رحمت علی نے استعمال کیا تھا۔ یقینی بات ہے کہ مسلم لیگی زعماء قرارداد لاہور کے وقت اس نام سے واقف تھے لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی قرارداد کے لیے قرارداد پاکستان کا نام رکھنا مناسب نہیں سمجھا۔


  • یہ قراداد 23 مارچ کو پیش ہوئی ا ور اگلے روز یعنی 24 مارچ 1940 کو منظور ہوئی۔ لیک پاکستان کی ساری درسی (اور کچھ سرکاری مؤرخوں کی تحریروں ) میں اس قرارداد کی منظوری کی تاریخ  23 مارچ درج ہے ۔ جو کہ سراسر غلط ہے۔ مثال کے طور پر قرارداد مقاصد 7 مارچ 1949 کو پیش ہوئی اور  5 دن بعد 12 مارچ کو منظور ہوئی اور آج قراردادِ مقاصد کے ساتھ اس کی منظوری کی تاریخ یعنی 12 مارچ جُڑی ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح قرارداد لاہور بھی 24 مارچ کو منظور ہوئی اور اسی تاریخ کی اہمیت ہونی چاہئے۔


  • پاکستان میں 23 مارچ کو ہر سال یومِ پاکستان کے نام سے منایا جاتا ہے اور اس کی مناسبت 1940 کی قرارداد لاہور سی کی جاتی ہے۔ اصل میں یہ تقریبات یومِ جمہوریہ کے سلسلے میں ہیں جو 23 مارچ 1956 کو آئین کے نفاذ کی خوشی میں اگلے دو سالوں تک منائی گئیں، مگر ایوب خان کی فوجی حکومت نے آئین کو ختم کرنے کے ساتھ 23 مارچ کی تقریبات کا تعلق بھی آئین کے نفاذ سے ہٹا کر قرارداد لاہور سے جوڑ دیا۔ ایوب خان کی تاریخ سے دھوکہ دھی کو آج تک درست نہیں کیا گیا۔ ( مزید تفصیل کے لیے نیچے لنک دیا ہوا ہے)۔ 
  • hhttp://poshidahaqiqat.blogspot.com/2015/03/23-reality-of-pakistan-day.html

  • قرارداد لاہور میں ایک سے زائد ریاستوں کی تشکیل کا ذکر موجود تھا  اور جب 1941 میں یہ قرارداد مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بنی تب بھی اس کا مطالبہ دو یا دو سے زیادہ ریاستیں تھا۔ اپریل 1946 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قومی و صوبائی منتخب شدہ اراکین کا سہ روزہ کنونشن دہلی میں معنقد ہوا۔ اس اجلاس میں قراداد لاہور میں ترمیم کرکے ریاستوں کی جگہ ایک ریاست کا مطالبہ کیا گیا۔ لیکن سوال یہ کہ آیا منتخب اراکین کا کنونشن قرارداد لاہور (جو بعد میں مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بھی بنا) میں تبدیلی کا اختیار رکھتی تھی ؟ آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کے مطابق جو قراداد یا فیصلہ کسی اجلاس میں منظور ہوجائے تو ایسے فیصلوں میں تبدیلی یا منسوخی صرف آل انڈیا مسلم لیگ کے کسی دوسرے اجلاس میں ہوسکتی ہے۔  اسی طرح جن لوگوں(رہنما و عوام) نے قرارداد کی منظوری کے وقت اس کا ساتھ کئی ریاستوں کے مطالبے کی وجہ سے دیا تھا ان کی مرضی کے بغیر ترمیم کی اخلاقی حیثیت کمزور ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے مشہور قانون دان سید شریف الدین پیرزادہ کے مطابق قرارداد لاہور میں دراصل متحدہ ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی بات کی گئی تھی، جسے بعدازاں اصلیت سے ہٹا کر نئے توجیہات اور مطالب پہنا کر "قراردادِ پاکستان"  کا لبادہ اوڑھا دیا گیا۔ 


  • اس قرارداد میں میں موجود ریاستوں کو اندرونی طور سے خودمختار بنانے کا مطالبہ کیا گیاتھا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے قیام کے بعد صوبوں کو خود مختاری دینے سے اجتناب کیا گیا جس کی وجہ سے 1971 میں مشرقی پاکستان ہم سے جُدا ہو کر الگ ملک بنگلہ دیش بن گیا اورآج بھی چھوٹے صوبے اختیارات کی  کمی کی وجہ سے ناراضگی کا شکار ہیں۔ قائداعظم کی وفات کے چند ماہ بعد ہی آئین سازی کے لیے لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد کے عنوان سے نئی ترجیحات طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریاست پاکستان 1940 کی قرارداد لاہور کو بنیادی دستاویز قرار دیتی مگر اس کی بجائے بنیادی اصول آئین بنانے والی کمیٹی نے مضبوط مرکز کے گرد حکمرانی کا پہیہ ایسے گھمایا کہ جس نے مختلف قسم کے تنازعات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا۔ مضبوط مرکز کا فلسفہ 1940 کی قرارداد کے خلاف پہلا حملہ تھا کہ جس کے لیے قرارداد مقاصد کو استعمال کیا گیا۔ قرارداد لاہور پر دوسرا حملہ ون یونٹ کی تشکیل تھی جسے 1956 کے آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ حتیٰ کہ 1956 کے آئین میں صوبوں کو یکساں نمائندگی دینے کے لیے سینٹ کا ادارہ بھی نہیں تھا۔ قیام پاکستان کے صرف 11 سال بعد ملک میں مارشل لا لگا کر صوبوں کے اختیارات کم کئے گئے۔ ایوب خان حکومت  کے خاتمے پر  یحییٰ خان کا مارشل لا آن دھمکا ۔ 16 دسمبر 1971 کو مرکزیت پسندی کی پالیسی کا انجام سامنے آیا مگر حکمرانوں اور تاریخدانوں نے اس سے سبق سیکھنے کی بجائے سارا الزام یحییٰ خان کی شراب نوشی، بنگالیوں کی غداری اور بھٹو صاحب کی مکاری پر دھر دیا۔


ضمیمہ جات

مولوی فضل الحق
 قرار داد لاہور کے پیش کنندہ شیربنگال مولوی ابولقاسم فضل الحق 1873 کو مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنی سیاسی زندگی میں کئی ایک اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ آپ کو قرارداد لاہور کی منظوری کے ایک سال بعد آل انڈیا مسلم لیگ سے نکال دیا گیا۔ آپ نے 1962 میں وفات پائی ۔ 

چودھری رحمت علی
 چودھری رحمت علی نے 1933 میں سب سے پہلے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے خودمختار وطن کے لیے پاکستان کا نام تجویز کیا۔ لفظ پاکستان کے خالق کو لاہور کے اس تاریخی اجلاس میں شرکت کرنے نہیں دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد جب آپ بن بلائے مہمان کی صورت میں پاکستان آئے تو لیاقت علی خان کی حکومت نے آپ پر دباؤ ڈال کر واپس لندن جانے مجبورکردیا۔ آپ نے 1951 میں وفات پائی اور کیمبرج میں امانتاً دفن ہوئے۔ اس عظیم دانشور اور سیاسی مدبرکے ساتھ پاکستانی حکومت، سیاستدانوں اور تاریخدانوں کا رویہ انتہائی معتصبانہ رہا ہے۔ چند سال پہلے ایک تجویز چلی تھی کہ چودھری رحمت علی کا جسدِ مبارک پاکستان لا کر دفن کیا جائے۔ لیکن اناپرست ، خودغرض اور بغض سے بھرے سیاستدانوں نے دنیا کے سب سے پہلے پاکستانی کو پاک سرزمین میں دفن ہونے نہیں دیا۔ 

 یادگار پاکستان
یادگارپاکستان کی تعمیر کا  فیصلہ 1960 میں ہوا مگر تعمیری کام دو سال بعد شروع ہوا۔ مینار کی تعمیر کا کام پہلے دو سالوں میں فنڈز کی کمی کی وجہ سے کافی سست رفتاری کا شکار رہا تاہم 1965 میں صوبائی حکومت نے اس قومی یادگار کے قیام  کے لیے سینما اور ریس ٹکٹ پر ٹیکس لگا کر فنڈز کی کمی کا مسئلہ حل کیا ۔ 22 مارچ 1968 کو اس 196 فٹ بلند  مینار کی تعمیر مکمل ہوئی۔
اللہ تعالیٰ کے 99 صفاتی نام ، قرآن پاک کی آیات مبارک ، قائداعظم کے ارشادات ، قرارداد لاہور کا متن ، علامہ اقبال کے چند اشعار اور پاکستان کا قومی ترانہ سفید سنگ مرمر پر کندہ کیا گیا ہے ۔ 

اقبال پارک لاہور میں قرارداد لاہور کی یاد میں تعمیر کردہ مینار پاکستان

یونینیسٹ پارٹی

 پنجاب یونی نیسٹ پارٹی 1927 میں قائم ہوئ۔ سر محمد اقبال ، سر فضل حسین، ملک فیروز خان نون، سر رحیم بخش ، چودھری ظفر اللہ خان، سردار سکندر حیات خان، شیخ عبدالقادر اور نواب شاہ نواز خان ممدوٹ اس کے بانیان میں شامل تھے۔ 1937 میں سکندر حیات اور محمد علی جناح کے درمیان ایک معاہدے کے تحت یونی نیسٹ پارٹی آل انڈیا مسلم لیگ میں ضم ہوگئی۔  اس پارٹی کے رہنماؤں نے تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کا ساتھ دیا لیکن جب خضر حیات کو مسلم لیگ سے نکالا گیا تو یونی نیسٹ پارٹی نے مسلم لیگ سے راستے جدا کردئے۔

Text of the Lahore Resolution
"Resolved that it is the considered view of this session of the All India Muslim League that no constitutional plan would be workable in this country or acceptable to the Muslims unless it is designed on the following basic principles, viz., that geographically contiguous units are demarcated into regions which should be so constituted, with such territorial readjustments as may be necessary, that the areas in which the Muslims are numerically in a majority, as in the North-Western and Eastern zones of India, should be grouped to constitute 'Independent States' in which the constituent units shall be autonomous and sovereign". (The italics have been added  to show the use of ambiguous geographical terms).


 مشہور مؤرخ جناب کے کےعزیز کے مطابق قرارداد لاہور کے متن میں کئی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ قرارداد میں پانچ مختلف جغرافیائی اصطلاحات بغیر کسی تشریح کے استعمال کی گئی ہیں ۔ آزاد ریاستوں کو واوین ('  ') میں غیر ضروری طور سے بند کیا گیا ہے ، کیونکہ ریاست تو ہوتی ہی آزاد ہے۔ آخری جملے میں "ریاستیں آزاد اور خود مختار  ہوں گی" میں 'ہوں گی' کے الفاظ شامل کرکے اس قرارداد کو مطالبے کی بجائے  لازم اور قطعی بنادیا۔ وفاقی حکومت کا ذکر کئے بغیر خود مختار اور حاکمیت والی اکائیوں کس مطالبہ کیا گیا ہے۔ مزید برآں آزاد ریاستوں کے مطالبے میں ریاستوں کی تعداد کا ذکر نہیں ہے۔  

حرفِ آخر

تاریخی  حقائق کو جھٹلانے اور اِن ناقابلِ تردید واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے کچھ وقت کے لیے اپنی پسند کے نتائج تو حاصل کئے جاسکتے ہیں مگر مسائل کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ وہ وقت جلد آئے گا کہ ہماری تاریخ چھیڑ چھاڑ اور من گھڑت واقعات سے آزاد ہوکر ایم معتبر تاریخ بن جائے گی ۔  

نوٹ : قارئین کو اس بلاگ میں  تصحیح ،  اعتراض  اور  اختلاف رائے  کی  مکمل آزادی ہے۔