Saturday, 29 July 2017

ذاتی بدلہ ۔ پانامہ کے مجرم اور وکیل کے متعلق سچی کہانی

   ذاتی بدلہ  (سچے کرداروں پر مشتمل کہانی )

آج سے تقریباً 40 سال پہلے پاکستان میں ایک ابھرتا ہوا نوجوان وکیل اپنی صلاحیتوں کے بل پوتے مختلف حلقوں میں موضوع سُخن تھا ۔ وکیل صاحب نے اُس وقت کے واحد سرکاری ٹیلی ویژن سے بہترین پروڈیوسر اور عظیم لکھاریوں کی معاونت سے کئی یادگار پروگرام بھی پیش کئے ۔ وکیل نے اپنی مسکراہٹ ، ظرافت اور خوبصورت جملوں کے انتخاب سے ہر شخص کو اپنا گرویدہ بنایا اور یوں عوام میں زبردست شہرت حاصل کی ۔



اس سچی کہانی کے دوسرے کردار کا تعلق پاکستان کی مقبول سنگر گھرانے سے ہے ۔ اسی گھرانے کی سنگر کی طرف سے  بڑھاپے کی عمر میں گائے جانے والا نغمہ
 ابھی تو میں جوان ہوں
ہوا بھی خوشگوار ہے
گلوں پر بھی نکھار ہے
ترنم ہزار ہے ، بہار پُر بہار ہے ۔ حفیظ جالندھری
 نے بے شمار بوڑھوں کو گزرتی عمر کا احسان نہیں ہونے دیا ۔ گلوکارہ  کی ایک خوبصورت بیٹی بھی سرور و آواز کی نگری میں وارد ہوئی ۔ اس زمانے میں اچھی موسیقی اور بہترین آوازوں کے ساتھ ساتھ ایک سے بڑھ کر ایک  خوبصوت ترین چہرے موسیقی کی دنیا کو یادگار بنارہے تھے۔ اس کلاسک دور میں میڈم نورجہاں ، اقبال بانو، فریدہ خانم ، مسرت نظیر ، ناہید اختر ، سلمیٰ آغا ، ناذیہ حسن وغیرہ کے نغموں نے سماعت اور بصارت دونوں حسوں کو تسکین پہنچائی ۔ ایسے وقت میں تمام خصوصیات کی حامل اس ماہ رُخ کی موسیقی کی دنیا میں وارد ہونا ایک خوشگوار اضافہ ٹھرا ۔ موسیقی کی بہترین تربیت ، خوش آوازی ، خوبصورتی اور سب سے بڑھ کر دلکش اداؤں نے اس دختر دلربا کوصداکاری اور اداکاری کے مقبولیت کی اس معراج پر لا بٹایا جہاں اس کے لیے  برابر کا ساتھی ملنا بہت دشوار ہوچکا تھا ۔ موصوفہ نے نوجوان وکیل اور مقبول ٹی وی میزبان کو ہی اپنا ہم پلہ سمجھا اور یوں دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے  ۔ 

یل پل جھوموں ، جھوم کے گاؤں ۔ 
 دل میں پیار ہے  تیرا ، میں تیری تو میرا رے
آ ہم ایسے گھل مل جائیں ، جیسے شام سویرا ۔ 
 تجھ کو پون بھی چھو جائے تو ،     رو رو نیناں جل تھل کردوں ۔  
 آ پھلکوں میں تھام کے تجھ کو ،  سب دنیا سے اوجھل کردوں ۔ 
تجھ کو مجھ سے دور نہ کردے ،        کوئی چور لٹیرا ۔
سیپ میں جیسے بند ہو موتی ، یوں رہنا تو میرے دل میں ۔
سارے دیپ بجھا کر تیرا دیپ جلایا اس محفل میں ، اس محفل میں آکر ساجن کرلے رہن بسیرا
 پیار کیا ہے میں نے تجھ سے ، مر کے بھی میں پیار کرونگی
تجھ سے بچھڑ کر جینا ہو تو  ، تو جینے سے انکار کرونگی
تن میں میرے سانس ہے جتنے ، اُن میں نام ہے تیرا   
محترمہ کا گایا ہوا گیت ، شاعر قتیل شفائی ۔  
 لیکن خوشگوار شادی شدہ زندگی ، بیٹے کی نعمت و بیٹی کی رحمت اور ہر دلعزیزی کو نظر بد لگ گئی ۔

کہانی کا تیسرا کردار پاکستان کا ابھرتا ہوا سیاستدان ہے ۔ تقیرباً 40 سال پہلے جب فوجی 
حکمرانوں کو بناوٹی جمہوریت کی ضرورت پیش آئی تاکہ عوام کو مزید کچھہ عرصہ خاموش رکھا جاسکے تو کئی ایک طالع آزماؤں کو مقاصد کے حصول کے لیے میدان میں اتارا گیا ۔ اور لوگوں کے علاوہ فوجیوں کی گود میں پھلے بڑھے  ایک شہری و کاروباری شخص  کو صوبائی وزیر بناکر بطور خصوصی مہرہ آزمایا گیا ۔ جب کارندے نے بہترین جی حضوری دکھائی تو بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کا منصب اس کا اگلا مقام ٹھرایا گیا ۔ 

وزیراعلیٰ صاحب نے مقتدر حلقوں کے امور سرانجام دینے کے ساتھ اپنے کاروبار کو ایسی وسعت دی کہ اس کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ اگلے انتخابات کے وقت فوجی حکمران تو زندہ نہ رہا لیکن اس کی سوچ فضا میں موجود رہی ۔ مخالفین کو میدان سے باہر رکھنے کے لیے اپنی ہی نرسری کے سیاستدان کو سابقہ حسن کارکردگی کی بنیاد پر 9 ہمخیال جماعتی اتحاد کا سربراہ بنایا گیا ۔ ایک بڑی سرکاری رقم کے ذریعے دائیں بازو ، قدامت پرست و نیم مذہبی خیالات کے ووٹر کو  باور کرایا  گیا کہ یہی اتحاد ہی پاکستان کو نظریاتی مملکت کے طور پر متحد رکھ سکتا ہے ۔ بھر پور کوشش کے باوجو مرکز میں یہ  اتحاد حکومت نہ بنا سکا البتہ پنجاب میں یہی سیاستدان وزیراعلیٰ اور اس کے  چھوٹے بھائی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ اگلے انتخابات کے لیے زیادہ انتظار نہیں کروایا گیا اور جب دو سال بعد انتخابات ہوئے تو اس بار سابقہ تجربے سے سیکھتے ہوئے  بغیر کسی غلطی کے من پسند اتحاد کو جتوایا گیا اور موصوف صاحب پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے ۔ وزیراعظم صاحب نے ملک کے خدمت سے زیادہ توجہ کرپشن پر دی اور دولت کے ڈھیر بنانے میں تو کامیاب رہا لیکن حکومت کو دو سال بعد گرانے سے نا بچا سکا ۔

قارئین کرام ۔ سیانے لوگوں نے کہا ہے کہ دولت اپنے ساتھ خواہشات کے حصول کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ لاتا ہے جو اکثر مصیبتوں کا پیش خیمہ بنتا ہے ۔ اور اگر یہ دولت ناجائز طریقے سے کمائی جائے تو یہ اخلاقی گراوٹ کا سبب بھی بنتا ہے ۔ یہی کچھ اسی سیاستدان کے ساتھ بھی ہونا تھا لیکن قدامت پرست ووٹ بینک اور عوامی نمائندے کی حیثیت سے کھلے عام برائی میں پڑنا مشکل تھا ۔ لہٰذا ہر پُرکشش عورت پر نظر لگا کر شادی کی پیش کش کی جاتی رہی اور کچھ وقت گزرنے کے بعد خاموشی سے تعلقات ختم کردئے جاتے ۔ چھوٹے بھائی نے تو کئی قانونی شادیاں رچالیں ، پر موصوف کو سیاسی خوف نے ایسا نہیں کرنے دیا اور کوشش بسیار کے باوجود اپنی سوچ کو عملہ جامہ نہ  پہنا سکے ۔

اسی نودولتیہ سیاستدان نے اپنے ہم علاقہ صراحی دراز گردن خاتون گولوکارہ کو پہلے ہی سے اپنی ہٹ لسٹ پر رکھا تھا ۔ اور جب حکومت میں آئے تو موصوفہ کو سرکاری انعامات و اکرامات سے نوازا گیا اور محبت کے جھانسے میں شادی کی پیش کش کردی ۔ 
 تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہو ، میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
  ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی ، کوئی بات صبر آزم چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو ، کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل ، چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
 بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی ، بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں۔ 
شاعر ۔ محمد اقبال 
ماہ جبیں سنگر بھی ایک اولوالعزم خاتون تھیں ، اور اسی خیال سے دل کو دھوکہ دیا کہ دولت اور حکومت ساتھ ہوں تو محبت اصلی ہو یا نقلی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ایسا لگتا ہے کہ گلوکارہ کے گائے ہوئے ایک مشہور غزل کے اشعار موصوفہ کے لیے ہی لکھے گئے ہیں۔
 یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
 وہ بُت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے
  یہ میرے ساتھ کیسی روشنی ہے
 کہ مجھ سے راستہ دیکھا نہ جائے
 یہ کن نظروں سے تو نے آج دیکھا
 کہ تیرا دیکھنا دیکھا نا جائے 
 ۔ شاعر ۔  احمد فراز

 اپنی ہی گائے ہوئے غزل کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے  شکار بن کر گلوکارہ  بےچاری شکاری کی باتوں میں ایسے آگئی جیسے کہ بہلنے اور پھسلنے کے لیے تیار بیٹھی ہو ۔ ان عظیم عزائم کے حصول کے لیے پہلے شوہر سے علیحدگی ضروری تھی اور جب میاں بیوی میں کوئی ساتھ چھوڑنا چاہے تو علیحدگی کے لیے کوئی خاص ظاہری وجہ کا ہونا ضروری نہیں ہوتی ۔ وکیل صاحب نے حالات کے سامنے شکست تسلیم کی اور گلوکارہ بیوی کو اسکا قانونی حق دیتے ہوئے آزاد کرادیا اور یوں 15 سالہ رفاقت کا خاتمہ ہوا ۔ دولت ، طاقت اور رعونت سے شکست کھانے والا وکیل پس پردہ چلا گیا اور صرف وکالت پر توجہ دینے لگا ۔ بقول شاعر
  میری غربت نے اڑایا ہے میرے فن کا مذاق
  تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں  
عالم پناہ  نے اپنے پیار کے دعوؤں کو سیاسی دعوؤں کے طرح نبھایا اور خاتون کو کچھ عرصہ تعلق کے بعد بتایا کہ یہ تو ساری دل لگی کے لیے تھا ، میں روایتی عوام کی نمائندگی کا دعوہ دار ہو کر ایک گانے والی کو کیوںکر بیوی بناسکتا ہوں ۔  جھیل جیسی آنکھوں والی ، گلابی ہونٹ اور کتابی چہرہ گلوکارہ  بےچاری کا ہنستہ بستہ پہلا گھر اجھڑ گیا اور دوسرا خوابوں والا گھر نہ بس سکا ۔ گلوکارہ اپنے بچوں کے کو لے کر گمنامی کی دنیا میں چلی گئی ۔
  
وقت کے رفتار کا پہیہ گھومنے لگا ۔ سیاستدان پچھلی صدی میں دوسری مرتبہ بھی وزیراعظم بنا اور چھوٹے بھائی کو بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ بنوادیا ۔ دونوں برائے نام ہی شریف تھے کیونکہ حکومتی اختیارات کو اپنی ہوس زر کے لیے استعمال کرتے ہوئے  پہلے سے بھی زیادہ دولت مند بن گئے ۔ اس بار بھی بہت جلد ان کی حکومت کا تختہ الٹا دیا گیا ، دونوں شریف ذادے قید ہوئے  مگر بیرونی مداخلت پر دس سالہ جلاوطنی کا معاہدہ کر کے جان اور مال بچا نے میں کامیاب ہوئے ۔ سات سال بعد ملک واپس لوٹے تو انتخابات کے نتیجے میں چھوٹا بھائی بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ بن گیا ۔ اس دوران دونوں بھائیوں نے اپنے ہی فلسفے پر بچوں کی سیاسی اور اخلاقی تربیت جاری رکھی ۔ بچے بھی دولت کے انبار اکھٹے کرنے میں مصروف رہے اور سیاسی جان نشین کے طور پر ان کو سامنے لایا جانے لگا ۔ بچے بھی بڑوں کی طرح دولت اور شادیوں کے شوقین نکلے ۔ اگلے انتخابات میں سیاستدان کو ملک کا وزیراعظم بنایا گیا ، بعض لوگ بضد ہیں کہ وہ عوام کے ووٹوں سے ہی حکومت بنانے میں کامیاب ہوا تھا ۔ اس دفعہ اس سیاستدان  کا واسطہ ایک ایسے ناتجربہ کارسیاسی مخالف سے پڑا جو بڑا کھلاڑی ثابت ہوا ۔ کھلاڑی نے شروع دن سے وزیراعظم پر الزامات لگائے لیکن وزیراعظم نے چھوٹے موٹے سیاستدانوں کو خرید کر کھلاڑی کے واروں کو کھوکھلا بنادیا ۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ایک رات پاکستان سے بہت دور، ایک چھوٹے سے ملک میں رجسٹرڈ کمپنیوں کا ریکارڈ افشا ہوا ۔ جس سے پتہ چلا کہ وزیراعظم نے کمال مہارت سے اپنی ساری دولت بچوں کے نام منتقل کی ہے اور اسی دولت میں اضافہ کرنا تو ان بچوں کے لیے گویا بچوں کا کھیل ثابت ہوتا رہا ۔ وزیراعظم کی اس کھلی کرپشن کے خلاف کھلاڑی نے شور مچایا کہ یہ 'چوری کا مال ہے' ۔ عدالت حرکت میں آئی اور ایک صبر آزما اور طویل مقدمے کے بعد وزیراعظم کو عمر بھر کے لیے نا اہل کیا گیا اور اس کے داماد اور سمدھی کو بھی عوامی نمانئندگی کا اہل نہ سمجھتے ہوئے ہٹایا گیا ۔


دوسری طرف اس 25 سال کے وقفے میں وکیل صاحب کا نام اس وقت ابھر کر سامنے آیا جب اس نے ایک خط کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر الزامات لگائے ۔ لیکن یہ خط اُس وقت کے عوام کے جذباتی بہاؤ کے مخالف ٹھرا اور شہرت کے جھنڈے نہ گاڑ سکا ۔

بالاخر وقت نے  اس ایک سال کم ستر سالہ وکیل کو دشمن زیر کرنے کا ایک موقع ہاتھ تھما دیا ۔  وکیل موصوف نے جب وزیراعظم کے خلاف چلنے والے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مقدمے میں عوام اور میڈیا کی دلچسپی دیکھی تو پہلے کھلاڑی سیاستدان کو اپنا کپتان تسلیم کیا اور اس کے بعد اس تاریخی مقدمے کی پیروی کے لیے اپنی خدمات بغیر کسی صلے کے پیش کیں ۔ وکیل صاحب نہایت مستعدی سے عدالت میں بھی پیش ہوئے اور میڈیا کے نمانئندوں کے  سامنے بھی ۔ عدالت میں پھنستے تو کبھی شعر و شاعری اور کبھی ہنسی مذاق سے ماحول کو اپنے خلاف گرمانے سے بچائے رکھتے ۔ جج صاحبان کی عدالت سے باہر آتے تو دھوپ میں صحافیوں کی لگائی ہوئی عدالت میں پیش ہوتے  اور میڈیا کے کیمروں سے پرانی آشنائی کی بدولت اپنے مقصد کو کامیابی سے پھیلاتے رہے ۔ آخرِ کار ساری محنت رنگ لائی اور عدالت نے فیصلہ اُن کے حق میں سُنا دیا ۔ اس کامیابی نے وکیل کو زندگی کی سب سے بڑی کامیابی عطا کی ۔
 لیکن وکیل تو مقدمہ نہ ہارتا ہے نہ جیتتا ہے بلکہ وہ ایک پروفیشنل کی طرح اپنے کام سے غرض رکھتا ہے جس کے لیے وہ اپنے مؤکل سے پیسے وصول کرتا ہے ۔ مگر یہ مقدمہ تو بغیر پیسوں کے لڑا گیا ایسے میں وکیل اپنی جیت پر کیوں خوشی سے نہال ہورہا ہے ۔ اس جذباتی خوشی کی وجہ شاید یہ ہے کہ وکیل نے اس مقدمے کی بدولت دہائیوں بعد اپنا ذاتی بدلہ لے لیا تھا ۔
شاید یہ غزل محترمہ نے اپنی حالت سے بے خبر ہوکر گایا تھا ۔ 

  وہ باتیں تری وہ فسانے تیرے ، شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
بس ایک داغ سجدہ مری کائنات ،  جبینیں تری ، آستانے تیرے
ضمیر صدف میں کرن کا مقام ، انوکھے انوکھے ٹھکانے تیرے
مظالم ترے عافیت آفریں ، مراسم سہانے سہانے ترے
فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی ، ہیں بھرپور جب تک خزانے تیرے
دلوں کو جراحت کا لطف آگیا ، لگے ہیں کچھ ایسے نشانے تیرے 
اسیروں کی دولت اسیری کا غم ، نئے دام تیرے پرانے تیرے
  بس ایک زخمِ نظارہ ، حصہ مرا ۔ بہاریں تری ، آشیانے ترے
 فقیروں کا جمگھت گھڑی دو گھڑی ، شرابیں تری ، بادہ خانے ترے  
ضمیر بھی ہے تیرا حکایت کدہ ، کہاں تک گئے ہیں فسانے تیرے
بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم ، بُرے یا بھلے ، سب زمانے تیرے
عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ ، کہاں تک گئے فسانے تیرے
شاعر ۔ عبد الحمید عدم 
نوٹ 
: اس کہانی کے کردار اور واقعات سچائی پر مبنی ہیں ، البتہ جذوئیات افسانوی ہیں ۔ کرداروں کے اصلی یا فرضی نام نہیں رکھے گئے ہیں تاکہ قاری اپنی سوچ پر ان کرداروں 
کی مطابقت تشکیل دے سکے ۔

محترمہ کے دیگر گائے ہوئے غزل بھی اسی کہانی کے لیے مناسب ہیں  جیسا کہ 

اب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میری مان جائیے ، اللہ تیری شان قربان جائیے 
محفل میں کسی نےآپ کو  دل میں چھپا لیا ، اتنوں میں کون چور ہے ، پہچان جائیے
شاعر ۔ نواب مرزا خان داغ دھلوی    





Tuesday, 11 July 2017

جے آئی ٹی رپورٹ - 10 جولائی 2017 ۔ JIT Report on Panama Case

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا حتمی تحقیقاتی رپورٹ
پانامہ کیس (مقدمہ)

پہلا حصہ : رپورٹ کا تعارف

نوٹ 
 ذیل میں پانامہ مقدمہ کے سلسلے میں قائم شدہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے حتمی رپورٹ کا اردو میں قسط وار خلاصہ پیش کیا جارہا ہے ۔ واضح رہے کہ یہ خلاصہ رپورٹ کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے ، یہ نہ تو اس رپورٹ کی تشریح ہے اور نہ یہ کسی فریق کی حمایت یا مخالفت ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ  عام شہری اس رپورٹ کو خود پڑھ کر سمجھ سکے ۔ قارئین کرام کو اس ترجمہ و خلاصہ سے 
اختلاف کی مکمل آزادی ہے اور وہ اس میں اضافہ ، ترمیم یا غلطی کی نشاندہی کر سکتے ہیں ۔  شکریہ 
۔
پس منظر:
 سپریم کورٹ آف پاکستان نے 20 اپریل 2017 کو پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم قائم کرنے کا فیصلہ کیا ، جسکی ذمہ داری وزریراعظم نوازشریف کے بچوں کی لندن میں جائیداد کے معاملے کی چھان بین کرنا  تھا  ۔ 5 مئی 2017 کو اس ٹیم کے ارکان کا اعلان کیا گیا اور 8 مئی سے چھان بین کا عمل شروع ہوا ۔  ٹیم کو ہر 15 دن بعد سپریم کورٹ کو پیش رفت سے آگاہ کرنے اور 60 دنوں کے اندر سپریم کورٹ کو حتمی رپورٹ پیش کرنے کا پابند بنایا گیا ۔  ٹیم کے اراکین یہ ہیں۔
1۔  واجد ضیاء ۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل وفاقی تحقیقاتی ادارہ ۔ ۔ سربراہ
2۔ بریگیڈیئر (ر) محمد نعمان سعید ۔  نمائندہ آئی ایس آئی ۔ ۔ رکن
3۔ بریگیڈئیر کامران رشید ۔ نمائیندہ ملٹری اینٹیلیجنس ۔ رکن
4۔ عامر عزیز ۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان ۔ رکن
5۔ بلال رسول ، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ۔ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ۔ رکن / سیکرٹری
6 ۔ عرفان نعیم منگی ۔ ڈائریکٹر قومی احتساب ادارہ ۔ ۔ رکن


واجد ضیاء ۔ سربراہ ، جے آئی ٹی


تحقیقاتی رپورٹ کا دائرہ کار اور کلیدی توجہ

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ذمے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تلاش کرنا تھا ۔
1۔ گلف سٹیل ملز کا قیام کیسے عمل میں آیا ؛
2۔ یہ کمپنی کن وجوہات کی وجہ سے فروخت کی گئی ؛
3۔ اس کے بقیاجات کیسے منتقل ہوئے ؛
4۔ اس کی فروخت کا معاملہ کہاں ختم ہوتا ہے ؛
5۔ سرمایہ  جدہ ، قطر اور لندن تک کیسے پہنچا ۔
6 ۔ نوے کی دہائی میں حسن نواز اور حسین نواز نے کم عمری میں کسطرح فلیٹوں کا سودا کیا ۔؛
7۔ قطری شہزادے کے خط کی اصلیت کیا ہے ؛
8۔ قطری کمپنی کے حصص سے کسطرح فلیٹ خریدے گئے ؛
9۔ نلسن اور نسکول کمپنیوں کا اصل مالک کون ہے ؛
10- ہل مٹلز کسطرح قایم ہوئی ؛
11- فلیگ شپ انوسٹمنٹ کمپنی اور دیگر کمپنیوں کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا ؛
12 ۔ ان کمپنیوں کے روزمرہ خرچہ کے لیے پیسہ کہاں سے آیا ؛ اور
13 ۔ حسین نواز نے کہاں سے  نواز شریف کو لاکھوں روپے تحفے میں دئیے ۔
 ۔
اس کے علاوہ مدعیان علیہ کے دیگر اثاثے اور لندن میں جائیداد کی چھان بین بھی کرنا تھا ۔ جے آئی ٹی نے حتمی رپورٹ 12 جلدوں میں 10 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ میں جمع کرادی ۔ یہ رپورٹ کل 275 صفحات پر مشتمل ہے ۔ ( پہلی جلد میں تحقیقات کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے ۔)

نواز شریف اور اس کے بچے 

تحقیقات کا طریقہ کار
سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے 13 (جمع 2) سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے گواہان و  ثبوت ، واقعات کی تصدیق ، بیرون ممالک کے اداروں سے مدد ، دستاویزات کا معائنہ اور ماہرین کی خدمات  حاصل کی  گئیں ۔

ابتدائی منصوبہ بندی
پہلے اجلاس میں ارکان ، اشیاء اور معلومات کی حفاظت ، جے آئی ٹی کی حکومتی اثر سے آزادی ، بیرون ملک معاملات کے لیے ادارہ کا انتخاب اور مختلف محکموں میں ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے فیصلے ہوئے ۔

مقاصد کے حصول کے لیے عمل
کُل 28 گواہ طلب کئے گئے ، جس میں مندرجہ ذیل گواہ 5 پیش نہیں ہوئے ۔ حماد بن جاسم (قطری شہزادہ) ، شیخ سعید (نوازشریف کا امریکی دوست) ، موسیٰ غنی (اسحاق ڈار کا رشتہ دار) ، کاشف مسعود قاضی اور  شیزی نقوی ۔ اس کے علاوہ دو گواہان جاوید کیانی اور سعید احمد کے فیصلہ آنے تک بیرون ملک جانے پر پابندی لگادی گئی ۔

ریکارڈ اور دستاویزات کا تجزیہ
گواہان نے جے آئی ٹی کے سامنے چند کاغذات پیش کئے ۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ ، سٹیٹ بینک، ٹیکس ، ایف بی آر ، نیب ، ایف ائی اے ، الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بھی ریکارڈ حاصل کیا گیا ۔ ان اداروں نے اکثر ریکارڈ حصوں میں مہیا کیا اور اس سلسلے میں  ایف بی آر کو کوتاہی کا خصوصی ذکر درج ہے ۔
بیرون ممالک میں برطانیہ کے 2 اداروں ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، سویٹزرلینڈ اور لکزمبرگ میں ایک ایک ادارے سے ایک بار یا کئی بار رابطہ قائم کیا گیا ۔ تین وکالتی اداروں ( 2 برطانیہ میں موجود ) کے علاوہ تحریر کے ماہر کی خدمات بھی حاصل کی گئیں ۔ جے آئی ٹی کے دو ارکان نے متحدہ عرب امارات کا دورہ بھی کیا ۔ پاکستانی اداروں کے افسران نے جان کی خطرے کے باوجود تحقیقات میں مدد کی ۔
جے آئی ٹی کے اراکین کے دستخط کے ساتھ رپورٹ سپریم کورٹ کو 10 جولائی کو پیش کی گئی ۔ ٹیم کے سربراہ واجد ضیاء نے ابتداء میں نوٹ تحریر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا ان پر اعتماد کا شکریہ ادا 
کیا ہے ۔

(جاری ہے ) 














Sunday, 18 December 2016

کوئٹہ سانحہ کمیش رپورٹ 2016 Quetta Inquiry Commission Report Urdu



  کوئٹہ سانحہ انکوائری رپورٹ  2016      
از جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

تعارف
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 8 اگست 2016 کو بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر کی ہلاکت اور پھر اسی روز ہسپتال میں وکلا کے مجمع پر خود کش حملے کی تحقیقات کے لیے 6 اکتوبر 2016 کو ایک رکنی کمیشن بنانے کا حکم جاری کیا ۔ سپریم کورٹ کے جج (اور بلوچستان ہائی کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس )  جناب قاضی فائز عیسیٰ کو دہشت گردی کے ان واقعات کی جامع رپورٹ مرتب کرنے کے لیے 17 اکتوبر سے 17 نومبر تک کا وقت دیا گیا ۔  کمیشن کے قیام کو حکومت بلوچستان نے ابتدائی طور پر چیلنج بھی کیا ۔ کمیشن نے باقاعدہ کام شروع کرنے سے پہلے اخبارات میں کمیشن کے قیام اور اس کے سامنے بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے  اشتہارات شائع کئے  ۔  کمیشن کی قانونی مدت میں ایک دفعہ تین ہفتے اور دوسری مرتبہ ایک ہفتے مہلت دیتے ہوئے تاریخ کو 14 دسمبر تک بڑھایا گیا ۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ 54 دن کی مدت کے بعد 13 دسمبر 2016 کو پیش کی ۔ یہ رپورٹ 110 صفحات پر مشتمل ہے اور کمیشن کے قیام کے حکم سے لے کر انکوائری کے اختتام پر تجاویز تک تمام باتیں انتہائی تفصیل سے بیان کی گیئں ہیں ۔                                                                                                       

                                              



رپورٹ کے آخری 23 صفحات نقشہ جات اور تصاویر کے لیے مختص ہیں ۔ کمیشن نے مختلف شخصیات اور اداروں کو کُل 59 خطوط ارسال کئے اور کویٹہ میں 40 جب کہ اسلام آباد میں 5 افراد کمیشن کے سامنے پیش ہوئے ۔ کمیشن نے اپنی زیادہ تر کاروارئی غیر خفیہ طریقے سے کی اور مطعلقہ لوگ کمیشن کی کاروائی میں شریک ہوتے رہے ۔ البتہ کچھ اجلاس خفیہ ( اِن کیمرہ ) بھی ہوئے ۔                                          
عزت مآب جناب جسٹس فائز عیسیٰ

کمیشن کی کارکردگی
کمیشن کے سامنے 8 اگست 2016 کو رونما ہونے والے دو دہشت گرد حملوں کی انکوائری تھی۔ پہلے واقعہ جب بلوچستان بار ایسو سی ایشن کے صدر جناب بلال احمد کاسی کو ان کے گھر سے کچھ فاصلے پر موٹر سائیکل سوار قاتلوں نے فائرنگ سے ہلاک کیا ۔ دوسرے واقعے میں حادثے کی اطلاع ملتے ہی کئی وکلا نے ہسپتال کا رخ کیا جہاں وکلاء کے مجمع پر خود کش حملہ ہوا جس 75 قیمتی جانیں (زیادہ تر وکلاء) ضائع ہوئیں اور 105 لوگ زخمی ہوئے ۔ ان حملوں کی ذمہ داری جمیعت الاحرار نے قبول کی ۔                                                                                    
کمیشن کی کوششوں سے خود کش حملہ آور اس کے ساتھیوں  کی شناخت ممکن ہوسکی ۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے 29 سالہ خود کش حملہ آور کا نام احمد علی تھا  ۔ کمیشن ہی کی کوششوں سے ہی  خود کش بمبار کا کوئٹہ شہر سے باہر دھماکہ خیز مواد بنانے کا مقام معلوم ہوسکا ۔ مزید تحقیق سے معلوم ہوا کے دہشت گر ضلع پشین میں واقع ایک بڑے گھر میں روپوش رہے تھے۔ 5 دسمبر 2016 کو پولیس نے وہاں چھاپہ مارا جس کے نتیجے میں چار دہشت گرد ہلاک اور ایک گرفتار ہوا ، جب کہ واقعے میں دو پولیس والے زخمی بھی ہوئے ۔ پولیس کے مطابق گروہ کا سربراہ جہانگیر بدینی خضدار انجنئرنگ یونیورسٹی کا ڈگری ہولڈر تھا ۔ خود کش حملہ آور ، ہلاک شدہ و گرفتار شدہ تمام دہشت گردوں کا تعلق بلوچستان سے تھا ۔                                                                        
خودکش حملہ آور

منصوبہ ساز


پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات
جنوری 2001 سے اکتوبر 2016 تک کُل 17503 دہشت گرد حملے ہوئے (یعنی فی دن 3 حملے ) ۔ 2900 کے قریب حملے بلوچستان میں ہوئے ۔ (اس کے بعد بھی بلوچستان میں کئی دہشت گرد حملے ہوچکے ہیں ، مثلاً پولیس ٹرینگ کالچ ، درگاہ  شاہ نورانی پر حملہ ) ۔

کالعدم تنظیمیں
 حکومت پاکستان نے نومبر 2016 تک 63 مختلف جماعتوں کو کالعدم قرار دیا ہے ۔ 16 اگست 2016 کو بلوچستان حکومت نے وزارت داخلہ سے درخواست کیا کہ صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث جمیت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا جائے  (لیکن چودھری نثار نے ان درخواستوں کو قابل عمل نہیں سمجھا ) ۔ کمیشن کے پوچھنے پر نیکٹا (وزارت داخلہ ) نے بتایا کہ انہوں نے اس سلسلے میں آئی ایس آئی کو خط لکھا ہے لیکن اب تک جواب کا انتظار ہے (اگرچہ آئی ایس آئی کے خط کا جواب دینے یا نا دینے کا کالعدم قرار دینے سے کوئی تعلق نہیں ہے )  ۔ کمیشن نے اس سلسلے میں سیکریٹری  وزارت داخلہ سے چند سوالات کئے جن کے جوابات انتہائی مضحکہ خیز آئے ۔ اسی طرح لاہور میں دو  چرچوں پر حملے (مارچ 2015) اور پشاور چرچ حملہ (ستمبر 2013) کی ذمہ داری قبول کرنے والی جماعتوں کو بھی کالعدم قرار نہیں دیا گیا ، جبکہ اخباری رپورٹس پر برطانوی حکومت نے اس جماعت کو کالعدم قرار دیا ۔                                                                       
اسی طرح حکومت کے کسی بھی ادارے نے اب تک کالعدم تنظیموں کے نام عوام کو ظاہر نہیں کئے تاکہ وہ جان سکیں کہ کونسی تنظیمیں کالعدم ہیں تاکہ ان کی رکنیت ، طرفداری اور مالی اعانت سے اجتناب کرسکیں ۔
مولانا یوسف لدھیانوی جو بیک وقت تین کالعدم تنظیموں کے سربراہ ہیں نے 21 اکتوبر 2016 کو چودھری نثار سے ملاقات نہ صرف ملاقت کی بلکہ اسلام آباد ہی میں جلسہ بھی کردیا ۔                   
وزیر داخلہ بغیر اجازت کے آنے والے مہمان کے ساتھ
(چودھری نثار نے اخباری کانفرنس میں بتایا کہ انہیں دفاع پاکستان کونسل کے وفد میں مولانا لدھیانوی کی شرکت کا علم نہیں تھا ، جس کے جواب میں جماعت اسلامی نے بتایا کہ ملاقت چودھری نثار کی خواہش پر ہوئی تھی ۔ واضح رہے کہ کالعدم تنظیموں کے ارکان پولیس کی اطلاع کے بغیر اپنا شہر نہیں چھوڑ سکتے اور نہ اجتماعات میں شرکت کرسکتے ہین  جبکہ مولانا لدھیانوی نے چودھری نثار سے ملاقت کر ڈالی اور جلسہ بھی کرڈالا ۔

 یہ جلسہ 28 اکتوبر 2016 کو اسلام آباد میں  "بغیر اجازت" کے وفاقی تحقیاتی ادارہ – ایف آئی اے – کے دفتر کے قریب ہاکی گراؤنڈ منعقد ہوا ) ۔          


بلوچستان ہائی کورٹ نے 2013 میں حکومت پاکستان کو دہشت گردی کے تھوڑ کے لیے کئی تجاویز دی تھیں ، جن میں کسی ایک پر بھی حکومت نے عمل درآمد نہیں کرایا ۔              ۔                                                           

انٹی ٹیریریزم ایکٹ (اے ٹی اے ) اور نیکٹا
اینٹی ٹیریزم ایکٹ (اے- ٹی – اے ) 1997 میں منظور ہوا ، جس کے تحت دہشت گردی کی سزائیں اور دہشت گردی  میں ملوث تنظیموں کو کالعدم قراردیا جاسکتا ہے ۔
نشنل کاؤنٹر ٹیریرزم اتھارٹی (این - آے – سی – ٹی - آے) پاکستان کا قیام 2013 میں  دہشت گردی کو قابو کرنے کے لیے لایا گیا ۔ وزیر داخلہ اس کے سربراہ ہونگے اور  قانون کے مطابق انتظامی کمیٹی کی میٹنگ ہر تین مہینوں میں ضروری ہے ۔ لیکن یہ ادارہ اپنے قیام سے لیکر آج تک صرف ایک بار اجلاس منعقد کراسکا ہے اور اپنے اغراض و مقاصد کے حصول میں مکمل طور سے نا کام رہا ہے  ۔ دسمبر 2016 میں آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد 20 نکاتی نشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا ۔  حکومت پاکستان نے اس پلان پر عمل درآمد کے لیے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر مقرر کیا ۔ لیکن پلان پر عمل در آمد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کمیشن کو نیکٹا اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کی جانب سے فراہم کردہ حقائق اور اعداد و شمار میں اختلافات موجود ہیں ۔      

میڈیا
رپورٹ کے مطابق میڈیا نے آزادی کے نام پر قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی شروع کی ہوئی ہے ۔ دہشت گردوں کے بیانات بڑھا چڑھا کر نشر کرنا ، ان کو اہمیت دینا  ،  ان کے لیے ہمدردری پیدا کرنا ، کالعدم تنظیموں کی خبریں نشر کرنا ، ان کے کاموں کی تشہیر کرانا وغیرہ غیر قانونی ہے ۔          

دین اور دہشت گردی
کمیشن نے قرآن پاک کی مختلف آیات مقدسہ اور احادیث مبارکہ کا حوالا دیتے ہوئے بتایا ہے کہ دین اسلام میں کسی بھی مذہب پر عمل پیرا انسان کا  ناحق خون بہانا اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔   

وفاق المدارس (مدارس کے تعلیمی بورڈز)
پاکستان میں پانچ تعلیمی بورڈز (وفاق المدارس) کام کررہیں ہیں ۔ کمیشن نے ان سے ایک خط کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف معلومات حاصل کیں ۔ جواب میں انہوں نے بتایا کہ تمام بورڈز کے پاس کُل 26465 دینی مدارس رجسٹرڈ ہیں اور ان تمام بورڈز نے دہشت گردی کے خلاف اپنا عزم ظاہر کیا ۔ وفاقی وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نے اس سلسلے میں خط کا جواب دیتے ہوئے (اپنے ماتحت اداروں کے بارے میں ) کوئی بھی معلوماتی بات تحریر نہیں کی ( ان کے خط کی انگریزی میں بھی غلطی ہے ) ۔ اس کے علاوہ وفاقی محکمہ صرف حج اور عمرہ کے انتظامات میں مصروف دکھائی دیتا ہے جبکہ مدارس کی رجسٹریشن اور بین المذاہب ہم آہنگی کے بارے میں ان کا کام ادھورا ہے ۔                                                                                                     
قانون نافذ کرنے والے ادارے
دہشت گردی کے واقعے سے بہتر طور سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین  نہ تو کوئی ہم آنگی ہے اور نہ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی طریقہ کار وضع کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ سانحے کے دن ہوائی فائرنگ کی گئی جس کا فائدہ تو نہ ہوسکا البتہ امدادی کارکن خوف کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے ۔ اس کے علاوہ خوشی کے مواقع پر ہوائی فائرنگ اگرچہ خلاف قانون ہے لیکن قانون ایسے موقعوں پر حرکت میں نہیں آتا ۔                                                         

سرکاری ہسپتال کی حالت زار
سینڈیمن ہسپتال جہاں دہشت گردی کا واقع رونما ہوا ،  کوئٹہ کا بڑا سرکاری ہسپتال ہے ۔ کمیشن نے ہسپتال میں تعینات عملہ کی غفلت ، غیر حاضری اور خراب کارکرگی کو سامنے پیش کیا ہے ۔ کمیشن نے موبائل فون ڈیٹا کی بنیاد پر بتایا کہ سانحے کے روز ڈیوٹی سے 81 ڈاکٹر ، 18 نرسیں ، 15 پیرامیڈیکس سے غائب تھے جبکہ 52 دوسرے ڈاکٹروں کی موجودگی بھی مشکوک رہی ۔ عملہ کی حاضری کا کوئی انتظام نہیں تھا اور کچھ عرصہ پہلے اسی ہسپتال کے ڈاکٹر بائیومیٹرک نظام کو تھوڑ چکے تھے ۔ اس تھوڑ پھوڑ پر سیکریٹری محمکہ صحت نے کوئی کاروائی نہیں کی باوجود کہ یہ واقع کیمرے نے ریکارڈ کرایہ تھا ۔                                                                          
ہسپتال کے عملے میں 19 چوکیدار اور 75 گارڈز بھی شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ کمپنی کے 24 گارڈز اور 2 سپروائزرز کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں / تھیں ۔ سیکیورٹی کیمروں کی تعداد اور استعداد بھی ناکافی ہے / تھی ۔  ان کی غفلت اور غیر مؤثر کارکردگی واضح ہے ۔ ہسپتال میں تیمارداروں کی اوقات کار کے لیے کوئی طریقہ کار نہیں تھا ۔ سانحے کے بعد وی آئی پیز اور میڈیا کی موجودگی نے امدادی کاراوائیوں پر منفی اثر ڈالا ۔ ( مشہر زمانہ ) آرمی چیف نے سی ایم ایچ کا دورہ کیا ، نتیجتاً راستے اور موبائل فون بند ہوئے یوں امدادی کاراوائیوں میں خلل پڑا ۔                 
مریضوں کے لیے سٹریچر ، امدادی دوائیاں، آگ بجھانے کے آلات اور ایمبولینس ، مناسب کار پارک  وغیرہ سب کی کمی اور خراب کارکردگی نوٹ کی گئی ۔ ہسپتال کی صفائی ناگفتہ بہ تھی ۔ ہسپتال کے ایم ایس کا تعلیمی اور پیشہ ورانہ کارکردگی نہایت بری تھی ۔                                          

دہشت گردی کے معاشی نقصانات
2002 سے لے کر اب تک 11 ارب 83 کروڑ ڈالر کے نقصانات ملک کو برداشت کرنے پڑے ہیں ۔

حکومت بلوچستان کی نااہلی
صوبائی وزیر داخلہ نے بیان دیا کہ پاکستان دشمن دو پڑوسی ممالک اس حملے میں ملوث ہیں ۔ (اگرچہ آرمی چیف نے اس حملے کو سی پیک کے خلاف حملہ قرار دیا ، جس کا رپورٹ میں ذکر نہیں ہے ) ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے نومبر 2016 میں بیان دیا کہ سانحہ کوئٹہ کے منصوبہ ساز کو گرفتار کر لیا گیا ہے ، جب کہ ڈی آئی جی نے کمیشن کے سامنے اس خبر سے لاعلمی ظاہر کی ۔ اگلے روز ترجمان وزیراعلیٰ نے وضاحت کی کہ منصوبہ ساز نہیں بلکہ سہولت کار گرفتار کیا گیا ہے ۔ ڈی آئ جی نے کمیشن کے سامنے خبر کی تردید کی ۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ جب 5 دسمبر کو واقعی طور سے دہشت گرد ہلاک ہوئے تو میڈیا نے اس خبر کو توجہ نہیں دی ۔ روزنامہ جنگ (کوئٹہ ) نے دہشت گردوں کا بیان چھاپتے ہوئے لکھا کہ ان کے ساتھی مقابلے میں نہیں بلکہ پولیس حراست میں ہلاک کئے گئے ہیں ۔                                                                                          
سانحے کے وقت سیکریٹری صحت ایک غیر متعقلہ اور سفارشی افسر تھا ۔ موصوف میں ایک ہی خاصیت تھی کہ وہ  ریٹائرڈ لیفٹنٹ جنرل و  وفاقی وزیر ( غالباً عبدالقادر بلوچ ، منسٹر سیفران کی طرف اشارہ ہے ) کے بھائی ہیں ۔ اس کے علاوہ تین دیگر صوبائی سیکریٹریز بھی غیرقانونی طور سے تعینات تھے ۔
چیف سیکریٹری بلوچستان نے الزام لگایا کہ وزیر اعلیٰ اور متعلقہ وزراء ان کے کام میں بھرپور دخل انداز کرتے ہیں ۔

قابل ذکر کردار
ایک لیڈی ڈاکٹر نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے زخمیوں کی مدد کی ۔ دوسری لیڈی ڈاکٹر نے سانحے میں شدید زخمی ہونے کے باوجود ڈیوٹی پر آنا شروع کردیا ہے ۔ پنجاب فورینزک سائنس لیبارٹری کے ڈی جی و دیگر اراکین نے کمیشن کی بڑی حد تک مدد کی ۔                  ۔                                                      
بین الاقوامی سرحدات
افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدات پر کوئی حفاظتی اور نگرانی کے انتظامات نہیں ہیں اور دہشت گردوں کا سرحد پار کر فرار ہونا کوئی مشکل بات نہیں ۔

 حکومت کے ساتھ خط و کتابت
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے جتنی خط و کتابت کی ہے وہ صاف کاغذ پر تھی نہ کہ لیٹر ہیڈ پر ۔  بغیر شناخت ، فون نمبر، پتہ ، ای میل وغیرہ کے صفحات پر خطوط بھجوائے گئے ۔

آئی آیس آئی
آئی ایس آئی (جسے کچھ لوگ دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسی بھی کہتے ہیں ) کا نا کوئی ایڈریس ، فون نمبر، ای میل یا ویب سائیٹ موجود ہے ۔ کمیشن نے بتایا کہ امریکہ ، برطانیہ وغیرہ کی خفیہ ایجنسیوں کے اپنے باقاعدہ ویب سائیٹس ہیں ۔                                                                   

نتائج / دریافتیں / فائنڈ نگز
اس حصے میں واقعات کا خلاصہ اور اداروں کی کمزور کارکردگی کو بطور خلاصہ بیان کیا گیا ہے ۔ آئی جی پولیس کی نااہلی کو خصوصی طور سے اُجاگر کیا گیا ہے ۔ اداروں میں تعاون کے فقدان ، صوبائی محکمہ صحت کی خامیاں ، صوبائی حکومت کی خراب کارکردگی  کی وجوہات بیان کی گئیں ہیں کہ کیوں یہ ادارے پستی کا شکار ہیں ۔ وفاقی وزارت خارجہ کی نااہلی کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ وزارت سے متعلقہ اداروں کی حالت زار ، وزیر داخلہ کی اپنے کام سے عدم دلچسپی کو دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔                                                                                        

سفارشات
آخر میں اداروں کو کام پر توجہ دینے کے سفارشات دی ہیں ۔ ( کمیشن کی نظر میں قوانین میں کوئی کمی یا خامی نہیں ہے البتہ ) قوانین پر عمل در آمد میں کوتاہی دور کرنے اور عدالتی احکامات پر من و عن عمل درآمد  کی سفارش کی گئی ہے ۔ پنجاب کی طرح باقی صوبوں میں فورنزک لیبارٹریاں قائم کی جائیں ۔ مدارس اور اس کے طلباء کو ایک مربوط نظام کے تحت رجسٹرڈ کیا جائے ۔  شہداء اور زخمیوں کو بلا تاخیر معاوضہ ادا کردیا جائے ۔