شیر بنگال مولوی ابوالقاسم فضل الحق
قرارداد لاھور کے پیش کنندہ مولوی اے ۔ کے فضل الحق 1873 کو مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئے ۔ آپ ایک اعلیٰ درجے کے قانون دان اور وکیل تھے ۔
آپ نے اپنی سیاسی زندگی میں کئی سیاسی جماعتوں اور سیاسی اتحادوں میں وقت گزارا ۔ قرارداد لاھور کی منظوری کے ایک سال بعد آپ کو آل انڈیا مسلم لیگ سے نکال دیا گیا ۔ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں آپ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ آپ نے 1962 میں وفات پائی ۔ مولوی فضل الحق کو ان کی جرات اور بے باکی کی وجہ سے شیر بنگال کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔
شیربنگال مشرقی بنگال کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ |
شیر بنگال کی سیاسی زندگی
1906 میں مسلم لیگ کے قیام میں آپ شریک تھے ۔ مسلم لیگ کے باقاعدہ قیام سے پیشتر اس کے لیے آئین اور منشور کی تیاری کے لیے جو چار رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی‘ ابوالقاسم فضل الحق اس کمیٹی میں شامل تھے۔ آپ نے کچھ عرصہ سرکاری ملازمت بھی لکن جلد ہی مستعفی ہوکر وکالت شروع کی ۔ 1913 میں آپ بنگال قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے ۔ (اس کے بعد آپ 1947 تک مسلسل بنگال کونسل سے وابستہ رہے ، صرف 1934 تا 1936 آپ بنگال کونسل کے رکن نہیں تھے جب آپ مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے رہے )۔
قائداعظم کی طرح آپ بھی کئی سالوں تک مسلم لیگ اور کانگریس کے نہ صرف رکن بلکہ بہ یک وقت دونوں جماعتوں کے عہدوں پر بھی فائز رہے ۔ 1918 میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت آپ نی کی ۔ 1916 تا 1918 آپ کانگریس پارٹی کے جنرل سیکریٹری رہے ۔ آپ نے دھلی میں ہونے والے پہلے آل انڈیا خلافت کانفرنس کی صدارت بھی کی ۔ 1920 میں آپ نے تحریک ہجرت کی مخالفت پر کانگریس پارٹی سے راستے جدا کردئے ۔
قائداعظم کی طرح آپ بھی کئی سالوں تک مسلم لیگ اور کانگریس کے نہ صرف رکن بلکہ بہ یک وقت دونوں جماعتوں کے عہدوں پر بھی فائز رہے ۔ 1918 میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت آپ نی کی ۔ 1916 تا 1918 آپ کانگریس پارٹی کے جنرل سیکریٹری رہے ۔ آپ نے دھلی میں ہونے والے پہلے آل انڈیا خلافت کانفرنس کی صدارت بھی کی ۔ 1920 میں آپ نے تحریک ہجرت کی مخالفت پر کانگریس پارٹی سے راستے جدا کردئے ۔
1924 میں آپ بنگال قانون ساز ادارے کے رکن اور عرصہ چھ ماہ کے لیے تعلیم کے وزیر بنے ۔ 1929 میں آپ نے Bengal Praja Party قائم کی جو بعد میں ایک مکمل سیاسی پارٹی Nikhil Banga Praja Samiti کی شکل میں ابھر کر سامنے آئی ۔ آپ کی پارٹیوں کا مقصد بنگال کے کسانوں اور مزارعین کی فلاح کے لیے کام کرنا تھا ۔ 1935 میں آپ کلکتہ کے پہلے مسلمان مئیر منتخب ہوئے ۔ بحیثیت مئیر کے آپ نے کسانوں کے حقوق کے لیے کام کیا ۔
مولوی فضل الحق نے 1930ء سے 1932ء تک لندن میں منعقد ہونے والی تینوں گول میز کانفرنسوں میں بھی شرکت کی۔
1936 میں شیر بنگال نے اپنی پارٹی کا نام کرشک پراجا پارٹی ( Krishak Praja Party -- K.P.P ) رکھ دیا ۔ قائد اعظم نے آپ کو مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے لیے نامزد کیا ، لیکن آپ نے اپنی سیاسی پارٹی کو مسلم لیگ میں ضم کرنے سے انکار کردیا ، جس سے مسلم لیگ کے ساتھ آپ کا سیاسی اتحاد ختم ہوا ۔
متحدہ بنگال کے پہلے وزریراعلیٰ
1937 کے صوبائی انتخابات میں آپ نے مسلم لیگ کے امیدوار خواجہ ناظم الدین کے خلاف کامیابی حاصل کی ۔ آپ کی پارٹی نے بنگال اسمبلی کے انتخابات میں کانگریس اور مسلم لیگ کے بعد تیسری پوزیشن پر رہتے ہوئے 35 نشتیں جیتیں جبکہ مسلم لیگ نے 40 نشتیں حاصل کیں ۔ مسلم لیگ کے ساتھ خراب تعلقات کے باوجود دونوں پارٹیوں نے اتحاد کیا اور یوریپین ، شیڈول کاسٹ ہندو اور آزاد اراکین کی مدد سے آپ بنگال کے وزیراعلیٰ بنے ۔ کچھہ عرصہ بعد اپنی ہی پارٹی کے اراکین آپ کے خلاف ہوتے رہے اور یوں آپ کی حکومت مسلم لیگ کی مرہون منت بنتی رہی ۔ اس دوران اپنی حکومت کو بچانے کی خاطر آپ مسلم لیگ کے بہت قریب ہوئے ۔ آپ مسلم لیگ کے ورکنگ کمیٹی کے رکن بن گئے ۔
آپ نے 1940 میں قرارداد لاھور پیش کی ۔ قرارداد لاھور کی حمایت پر آپ کے لیے بنگال میں فرقہ ورانہ مسائل پیدا ہوئے ۔
تفصیل کے لیے پڑھئے ۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران 1941 میں وائسرائے ہند نےبحیثیت وزیراعلیٰ بنگال آپ کو دفاع کے لیے قائم کونسل کا رکن نامزد کیا ۔ قائداعظم نے انگریزوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے آپ پر کونسل سے مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالا ۔ آپ نے قائداعظم کے حکم کو تسلیم کیا اور دفاع کونسل سے مستعفی ہوئے لیکن احتجاجی طور سے مسلم ورکنگ کمیٹی اور مسلم لیگ دونوں سے بھی استعفیٰ دے دیا ۔ جواب میں مسلم لیگ کے صوبائی وزراء نے آپ کی کابینہ سے استعفیٰ دیا ۔
آپ کی حکومت دسمبر 1941 میں ختم ہو کر پھر قائم ہونے میں کامیاب ہوئی ۔ 1943 میں آپ کی حکومت ایک بار پھر ختم ہوئی اور مسلم لیگ کے خواجہ ناظم الدین وزیراعلیٰ بنے ۔ آپ کی حکومت 1937 تا 1943 کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ پہلا دور 1937 تا 1941 اور دوسرا 1941 تا 1943 شمار ہوتا ہے ۔
1945 کے انتخابات میں آپ کی پارٹی نے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی اگرچہ آپ خود دو نشستوں سے کامیاب ہوئے ۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ نے کُل 117 میں سے 110 نشتیں حاصل کیں ۔ ستمبر 1946 میں آپ ایک بار پھر مسلم لیگ میں شامل ہوئے ۔
قیام پاکستان کے بعد
آزادی کے بعد 1947 سے 1952 تک آپ مشرقی پاکستان کے ایڈوکیٹ جنرل رہے ۔ 1953 میں آپ نے ایک اور سیاسی پارٹی 'Sramik-Krishak Dal' قائم کی ۔ 1954 کے انتخابات میں شیر بنگال کے زیر سرکردگی چار سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد یونائیٹڈ فرنٹ نے مسلم لیگ کے خلاف واضح اور بڑی کامیابی حاصل کی اور آپ بنگال کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ۔
سیاسی رہنماؤں کے ہمراہ |
آپ نے بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے اور صوبائی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کی ۔ آپ نے مشرقی پاکستان میں بحری فوج کا ہیڈکوارٹر قائم کرنے کی تجویز بھی پیش کی ۔ چند ماہ کے اندر اندر سیاسی عدم استحکام کے الزام پر گورنر جنرل پاکستان نے آپ کی حکومت برخاست کی ۔ 1955 میں آپ کو مرکزی حکومت میں وزریر داخلہ اور 1956 تا 1958 گورنر مشرقی پاکستان بنایا گیا ۔ آپ 1961 تک وفاقی وزیرخوراک و زراعت بھی رہے ۔
تفصیل کے لیے پڑھئے ۔ بنگلہ دیش کا قیام - پہلا حصہ - بنگال کی تاریخی حیثیت -- 1946 تک
شیخ مجیب الرحمان سے حلف لیتے ہوئے ۔1954 |
حرف آخر
شیر بنگلہ کی ساری سیاسی جدوجہد وطن کی آزادی ، تعلیم کے فروغ ، کسانوں کی فلاح ، جابر اور استحصالی قوتوں کا مقابلہ اور معاشی و معاشرتی انصاف کی فراہمی میں وقف ہوا ۔ آپ نے اپنی سیاسی زنگی میں کئی سیاسی جماعتوں میں کام کیا اور آپ کے سیاسی نظریات وقت کے ساتھ بدلتے رہے ۔ آپ نے بے شمار تعلیمی اداروں کے قیام کے ساتھ ساتھ ڈھاکہ میں مشہور بنگلہ اکیڈمی قائم کی ۔
بنگالی زبان کے عظیم شاعررابندر ناتھ ٹیگور کے ساتھ |
آپ آزادی سے پہلے متحدہ بنگال کے دو دفعہ وزیراعلیٰ بنے اور پاکستان بننے کے بعد مشرقی بنگال کے وزیراعلیٰ اور گورنر رہے لیکن ہر بار آپ کی پارٹی اسمبلی کی بڑی پارٹی نہیں تھی مگر آپ کی سیاسی بصیرت کی بنا پر آپ حکومت بنانے میں کامیاب ٹھرتے ۔ آپ 27 اپریل 1962 کو فوت ہوئے ۔ 30 اپریل 1962 کو شیر بنگلہ کی وفات پر پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے بند رہے ۔ آپ کو ڈھاکہ ہائی کورٹ کے احاطے میں دفن کیا گیا ۔ بعد میں اسی مقبرے میں پاکستان کے سابقہ وزراء اعظم خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی بھی دفن ہوئے ۔
آپ کا مدفن - ڈھاکہ |
No comments:
Post a Comment