Saturday, 3 September 2016

شیر بنگال مولوی ابوالقاسم فضل الحق - - سیاسی زندگی Sher - e - Bengal Maulvi A.K Fazl ul Haq - - Political History



شیر بنگال مولوی ابوالقاسم فضل الحق

قرارداد لاھور  کے پیش کنندہ مولوی  اے ۔ کے  فضل  الحق  1873  کو  مشرقی  پاکستان  میں پیدا ہوئے ۔ آپ ایک اعلیٰ درجے کے قانون دان اور وکیل تھے ۔ 

 آپ نے  اپنی  سیاسی  زندگی میں  کئی  سیاسی  جماعتوں  اور سیاسی  اتحادوں  میں وقت گزارا ۔ قرارداد لاھور  کی  منظوری  کے  ایک  سال  بعد آپ  کو آل  انڈیا مسلم  لیگ  سے  نکال دیا  گیا   ۔ قیام پاکستان  سے  پہلے اور بعد  میں  آپ  کئی اہم  عہدوں  پر فائز  رہے ۔   آپ نے  1962 میں  وفات  پائی ۔ مولوی فضل الحق  کو ان کی جرات اور  بے باکی کی وجہ سے  شیر بنگال  کے  لقب  سے  یاد  کیا جاتا  ہے ۔


شیربنگال مشرقی بنگال کے ایک چھوٹے سے گاؤں  میں پیدا ہوئے ۔ 


شیر بنگال کی سیاسی زندگی 

1906 میں  مسلم لیگ کے قیام میں  آپ  شریک  تھے ۔ مسلم لیگ کے باقاعدہ قیام سے پیشتر اس کے لیے آئین اور منشور کی تیاری کے لیے جو چار رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی‘ ابوالقاسم فضل الحق اس کمیٹی میں شامل تھے۔ آپ نے کچھ عرصہ سرکاری ملازمت بھی لکن جلد ہی مستعفی ہوکر وکالت شروع کی ۔ 1913 میں  آپ  بنگال قانون ساز  اسمبلی کے  رکن بنے ۔ (اس کے  بعد  آپ 1947 تک مسلسل بنگال کونسل سے وابستہ رہے ، صرف 1934 تا 1936 آپ بنگال کونسل کے رکن نہیں تھے جب آپ مرکزی  قانون ساز اسمبلی کے رکن  بنے رہے )۔

 قائداعظم کی  طرح آپ  بھی کئی سالوں تک مسلم لیگ  اور  کانگریس  کے  نہ صرف رکن  بلکہ بہ یک وقت دونوں جماعتوں کے عہدوں پر بھی فائز رہے ۔   1918 میں مسلم لیگ کے  سالانہ اجلاس  کی صدارت  آپ  نی کی ۔  1916 تا 1918 آپ کانگریس  پارٹی کے  جنرل  سیکریٹری رہے ۔ آپ  نے  دھلی میں ہونے  والے  پہلے  آل  انڈیا خلافت  کانفرنس کی  صدارت  بھی  کی ۔ 1920 میں آپ نے تحریک  ہجرت  کی  مخالفت  پر  کانگریس پارٹی  سے  راستے  جدا  کردئے ۔ 

1924 میں  آپ  بنگال  قانون  ساز  ادارے  کے رکن  اور  عرصہ چھ ماہ کے لیے تعلیم  کے  وزیر  بنے ۔ 1929 میں  آپ  نے    Bengal Praja Party  قائم کی جو بعد میں ایک مکمل سیاسی پارٹی  Nikhil Banga Praja Samiti   کی  شکل  میں  ابھر  کر سامنے  آئی  ۔ آپ کی  پارٹیوں  کا  مقصد  بنگال  کے  کسانوں  اور  مزارعین  کی  فلاح  کے  لیے  کام کرنا  تھا ۔  1935 میں آپ  کلکتہ کے پہلے مسلمان مئیر منتخب  ہوئے ۔ بحیثیت مئیر  کے آپ  نے  کسانوں  کے  حقوق  کے لیے  کام  کیا ۔ 

مولوی فضل الحق نے 1930ء سے 1932ء تک لندن میں منعقد ہونے والی تینوں گول میز کانفرنسوں میں بھی شرکت کی۔

 1936 میں  شیر بنگال نے  اپنی پارٹی کا   نام  کرشک پراجا پارٹی  ( Krishak Praja Party  -- K.P.P )   رکھ  دیا ۔  قائد اعظم  نے  آپ کو مسلم لیگ  کے  مرکزی پارلیمانی بورڈ کے  لیے  نامزد کیا ، لیکن  آپ نے  اپنی سیاسی پارٹی کو مسلم لیگ میں  ضم کرنے  سے  انکار کردیا ،  جس  سے مسلم لیگ کے  ساتھ آپ  کا سیاسی  اتحاد ختم  ہوا ۔ 

متحدہ  بنگال  کے  پہلے  وزریراعلیٰ

1937 کے صوبائی   انتخابات  میں  آپ  نے مسلم لیگ  کے  امیدوار خواجہ  ناظم الدین  کے خلاف  کامیابی  حاصل  کی ۔ آپ کی  پارٹی  نے  بنگال اسمبلی کے  انتخابات میں  کانگریس اور مسلم لیگ کے بعد تیسری پوزیشن پر رہتے  ہوئے   35 نشتیں  جیتیں جبکہ  مسلم  لیگ  نے  40  نشتیں  حاصل  کیں ۔ مسلم  لیگ کے  ساتھ  خراب  تعلقات کے  باوجود  دونوں  پارٹیوں  نے  اتحاد  کیا  اور یوریپین ، شیڈول کاسٹ  ہندو  اور آزاد  اراکین  کی  مدد  سے  آپ بنگال  کے  وزیراعلیٰ  بنے ۔ کچھہ  عرصہ بعد اپنی ہی پارٹی کے  اراکین  آپ کے خلاف ہوتے رہے اور یوں آپ کی حکومت مسلم لیگ کی مرہون منت بنتی رہی ۔   اس دوران اپنی حکومت کو بچانے کی خاطر آپ مسلم لیگ کے بہت قریب ہوئے ۔ آپ مسلم لیگ کے ورکنگ کمیٹی کے رکن بن گئے ۔ 

 آپ  نے  1940 میں  قرارداد  لاھور  پیش کی ۔ قرارداد لاھور  کی حمایت پر  آپ  کے  لیے  بنگال میں  فرقہ ورانہ مسائل پیدا ہوئے ۔

تفصیل کے لیے پڑھئے ۔ 

 دوسری جنگ عظیم کے  دوران 1941  میں وائسرائے ہند نےبحیثیت وزیراعلیٰ بنگال  آپ  کو  دفاع کے  لیے  قائم  کونسل  کا  رکن نامزد کیا ۔ قائداعظم  نے انگریزوں پر  دباؤ  ڈالنے  کے  لیے  آپ  پر کونسل سے  مستعفی  ہونے  کے  لیے  دباؤ ڈالا ۔ آپ  نے قائداعظم  کے  حکم کو  تسلیم کیا  اور دفاع  کونسل  سے مستعفی  ہوئے  لیکن احتجاجی طور  سے  مسلم ورکنگ  کمیٹی اور  مسلم  لیگ  دونوں  سے بھی  استعفیٰ دے دیا ۔  جواب میں  مسلم لیگ کے صوبائی  وزراء  نے  آپ  کی  کابینہ  سے  استعفیٰ دیا ۔ 

 آپ کی حکومت دسمبر 1941 میں  ختم ہو کر پھر قائم ہونے  میں  کامیاب ہوئی ۔ 1943  میں  آپ  کی  حکومت ایک بار  پھر   ختم ہوئی  اور مسلم لیگ  کے خواجہ ناظم  الدین  وزیراعلیٰ بنے ۔ آپ کی حکومت  1937  تا  1943 کو دو  ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ پہلا دور 1937 تا 1941 اور دوسرا 1941 تا 1943 شمار ہوتا ہے ۔ 


1945  کے  انتخابات میں  آپ  کی  پارٹی  نے  کوئی  خاطر  خواہ  کامیابی حاصل  نہیں کی اگرچہ  آپ  خود  دو  نشستوں  سے  کامیاب ہوئے ۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ نے کُل 117 میں سے 110 نشتیں حاصل کیں ۔ ستمبر 1946 میں آپ ایک بار پھر مسلم لیگ میں شامل ہوئے ۔ 

قیام پاکستان  کے  بعد

آزادی کے بعد 1947 سے 1952 تک آپ مشرقی پاکستان کے ایڈوکیٹ جنرل رہے ۔  1953 میں آپ نے ایک اور سیاسی پارٹی  'Sramik-Krishak Dal'  قائم کی  ۔ 1954  کے انتخابات میں  شیر بنگال کے  زیر سرکردگی  چار سیاسی جماعتوں پر  مشتمل اتحاد یونائیٹڈ فرنٹ  نے  مسلم لیگ  کے  خلاف  واضح  اور بڑی  کامیابی حاصل  کی اور آپ بنگال کے وزیراعلیٰ منتخب  ہوئے  ۔ 

سیاسی رہنماؤں  کے  ہمراہ

آپ  نے  بنگالی  زبان  کو قومی  زبان  کا درجہ  دینے  اور صوبائی  حقوق  کے حصول کے لیے  جدوجہد  کی ۔ آپ  نے مشرقی پاکستان  میں  بحری فوج کا ہیڈکوارٹر  قائم  کرنے  کی  تجویز  بھی  پیش کی ۔ چند ماہ  کے  اندر اندر  سیاسی  عدم استحکام  کے  الزام  پر  گورنر جنرل پاکستان  نے  آپ  کی حکومت  برخاست  کی ۔ 1955 میں آپ  کو  مرکزی حکومت  میں  وزریر  داخلہ  اور 1956 تا  1958 گورنر مشرقی پاکستان  بنایا گیا ۔ آپ 1961 تک وفاقی وزیرخوراک و زراعت بھی رہے ۔ 


شیخ مجیب الرحمان سے حلف لیتے  ہوئے ۔1954 


حرف  آخر 
شیر بنگلہ  کی ساری سیاسی جدوجہد وطن کی آزادی ،  تعلیم کے فروغ ، کسانوں کی فلاح ، جابر اور استحصالی قوتوں کا مقابلہ اور معاشی و معاشرتی انصاف کی فراہمی میں وقف ہوا ۔ آپ نے اپنی سیاسی زنگی میں کئی سیاسی جماعتوں میں کام کیا  اور آپ کے سیاسی نظریات وقت کے ساتھ بدلتے رہے ۔  آپ نے بے شمار تعلیمی اداروں کے  قیام کے  ساتھ ساتھ   ڈھاکہ میں مشہور  بنگلہ  اکیڈمی قائم کی ۔ 
بنگالی زبان کے عظیم شاعررابندر ناتھ ٹیگور کے ساتھ 

آپ آزادی سے پہلے  متحدہ بنگال کے دو دفعہ وزیراعلیٰ بنے اور پاکستان بننے کے بعد مشرقی بنگال کے وزیراعلیٰ اور گورنر رہے لیکن ہر بار  آپ کی پارٹی اسمبلی کی بڑی پارٹی نہیں تھی مگر آپ  کی  سیاسی بصیرت کی بنا پر  آپ  حکومت بنانے میں  کامیاب ٹھرتے ۔   آپ 27 اپریل 1962  کو فوت ہوئے ۔ 30 اپریل 1962 کو شیر بنگلہ کی وفات  پر  پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے بند رہے ۔ آپ کو ڈھاکہ ہائی کورٹ کے احاطے میں دفن کیا گیا ۔ بعد میں اسی مقبرے میں پاکستان کے سابقہ وزراء اعظم خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی بھی دفن ہوئے ۔ 

آپ کا مدفن - ڈھاکہ

کراچی میں پاکستان مسلم لیگ (شیر بنگال) کے نام سے سیاسی پارٹی قائم ہے جو وہاں بسنے والے بنگالیوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہے ۔ 

پاکستان مسلم لیگ (شیر بنگال اے ۔ کے فضل الحق ) کا انتخابی نشان رکشہ ہے ۔