کالاباغ ڈیم یا کالاباغ بند حکومتِ
پاکستان کا پانی کو ذخیرہ کرکے بجلی کی پیداوار اور زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کا ایک بڑا منصوبہ ہے ۔ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ روز اول سے ہی متنازعہ ہونے کی وجہ سے تاحال قابل عمل نہیں ہوسکا ہے ۔ پنجاب کے علاوہ
پاکستان کے باقی صوبے اس ڈیم کی تعمیر کے شدید مخالف ہیں ۔ پاکستان اس وقت آبی بحران کے ساتھ ساتھ بجلی کے
بحران کا بھی شکار ہے ۔ پاکستان میں منگلا اور تربیلا ڈیموں کی تعمیر کے 40 سے زائد
سال مکمل ہوگئے ہیں اور اس عرصے میں ہماری پانی اور بجلی کی ضروریات کئی گنا بڑھ
چکی ہیں ۔ ایسے حالات میں پاکستان کے لیے ایک بڑے ڈیم کی تعمیر نہایت ضروری ہے ۔
لیکن اشد ضرورت کے باوجود بھی کالاباغ ڈیم کے حق میں رائے عامہ ہموار نہ ہوسکی ہے ۔ کالاباغ ڈیم کیا
ہے ؟ اس کے حق اور مخالفت میں کیا دلائل دئے جاتے ہیں ؟ کالاباغ ڈیم جو ایک تکنیکی
مسئلہ ہے ، آخر کیوں سیاست کا شکار ہوا ؟ خیبر پختونخوا ، سندھ اور بلوچستان کی
صوبائی حکومتوں کا کیا مؤقف رہا ہے ؟ کیا مستقبل میں کالاباغ ڈیم پر عوامی رائے
ہموار ہونے کے امکانات ہیں ؟ ان تمام
سوالات کے جوابات اس سلسلہ وار بلاگ میں تلاش کئے جارہے ہیں ۔ بلاگ کے اس پہلے تعارفی حصے میں کالاباغ ڈیم
سے متعلقہ اصطلاحات کی مختصر وضاحت کی گئی
ہے ۔
کالاباغ :
کالاباغ ایک قصبے (اور یونین
کونسل) کا نام ہے جو ضلع میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل میں واقع ہے اور کالاباغ ڈیم کا مجوزہ مقام بھی ہے ۔ کالاباغ ڈیم کے منصوبے کا مقام میانوالی شہر سے
40 کلومیٹر شمال کی طرف واقع ہے ۔ کالاباغ
دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع ہے ۔ پشتو زبان میں گاؤں یا ڈھوک کے لیے 'کلے' کا لفظ استعمال ہوتا ہے (کرک اور
بنوں وغیرہ میں کلے کا تلفظ ' کلا' ہے ) لہٰذا کالاباغ کا مطلب 'باغ گاؤں' ہے ۔ بہت سے لکھاری کالاباغ ڈیم
پر لکھتے ہوئے اس کو' کالے باغ ' سے تعبیر کرتے ہیں جو
کہ زیادہ
مستند نظر نہیں آتا۔
کالاباغ کی زیادہ تر
آبادی خٹک ، نیازی اور اعوان قبائل پر مشتمل ہے ۔ کالاباغ محمود غزنوی کے زمانے سے
ایک جاگیردارانہ ریاست رہی ہے ۔ اگرچہ انگریزوں نے کالاباغ کو شاہی ریاست کا درجہ
نہیں دیا۔ ایوب خان دور حکومت میں زرعی اصلاحات کے تحت کالاباغ کے نواب نے اپنی
جائیداد میں سے ایک بڑا رقبہ کمیشن کے سپرد کیا ۔ 1967 میں کالاباغ کے نواب ملک
امیر محمد خان (گورنر مغربی پاکستان) کی وفات سے نواب کے خطاب کا خاتمہ بھی ہوا ۔
کالاباغ کا خطہ اپنے پڑوسی علاقوں کی طرح سطح مرتفع پوٹھوہار کی سرخ پہاڑیوں اور
کوہستان نمک کے سلسلے پر مشتمل ہے ۔
پاکستان |
ڈیم ، بیراج اور
ہیڈورکس:
ڈیم ( اردو زبان میں بند
یا باند ) پانی کا وہ ذخیرہ ہوتا ہے جسے کے
ذریعے بہتے پانی کو روک کر ذخیرہ کیا جاتا
ہے تاکہ یہی پانی حسب منشاء استعمال میں
لایا جاسکے ۔ ڈیم سیلاب کے تباہ کاریوں کو کم کرتا ہے ۔ ذخیرہ شدہ
پانی پھر ضرورت کے تحت آبپاشی اور دوسرے انسانی ضروریات کے لیے استعمال
ہوتا ہے ۔ پانی کے تیز بہاؤ سے پن بجلی بھی پیدا ہوسکتی ہے ۔ بیراج سے پانی کے بہاؤ کو روک کر اس کی سطح بلند کی جاتی
ہے تاکہ پانی کے رُخ کو موڑ کر حسب ضرورت نہروں میں بہایا جاسکے ۔ ہیڈورکس بھی پانی کے بہاؤ کا رُخ موڑنے کے لیے تعمیر
کیا جاتا ہے تاکہ دریا کا پانی نہر میں ضرورت کے حساب سے بہایا جاسکے ۔ تاہم
ہیڈورکس تعمیر کے لحاظ سے بیراج سے چھوٹے پیمانے پر ہوتا ہے ۔
ضلع میانوالی :
انگریز دورِ حکومت سے پہلے
میانوالی کے علاقے ضلع بنوں کا حصہ تھے ۔ 1901 میں میانوالی کو ضلع بنوں اور ڈیرہ
اسمٰعیل خان ڈویژن سے کاٹ کر صوبہ پنجاب کا حصہ بنایا گیا ۔ قیام پاکستان کے بعد
1955 میں جب ون یونٹ سکیم کے تحت مغربی پاکستان کے
تمام انتظامی یونٹوں کو اکھٹا کیا گیا اور چار صوبوں کی جگہ ایک صوبہ 'مغربی پاکستان'
قایم کیا گیا تو مغربی پاکستان کو 12 ڈویژنوں میں تقسیم کیا گیا اور
میانوالی کو ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کا
حصہ بنایا گیا۔ یہ سسٹم جون 1970 تک چلتا
رہا ۔
ضلع میانوالی
کا کل رقبہ 5840 مربع کلومیٹر ہے ۔ اس ضلع
میں تین تحصیلیں میانوالی ، عیسیٰ خیل اور پپلاں ہیں ۔ مرکزی شہر
میانوالی کے علاوہ عیسیٰ خیل اس ضلع کا مشہور شہرہے ۔ سطح سمندر سے اوسط بلندی 200 میٹر یا 690 فٹ ہے ۔
میانوالی
کے شمال میں اٹک اور کوہاٹ ، جنوب میں
بھکر ، مشرق میں چھکوال اور خوشاب جبکہ
مغرب میں ضلع کرک ، لکی مروت اور ڈیرہ اسمٰعیل خان واقع ہیں ۔ ضلع میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل (جہاں کالاباغ واقع ہے ) صوبہ پنجاب کا خیبر
پختونخوا سے متصلہ واحد علاقہ ہے جو دریائے سندھ کے مغرب کی طرف واقع ہے ۔
دریائے سندھ :
دریائے سندھ پاکستان کا سب سے بڑا
اور اہم دریا ہے ۔ یہ عظیم دریا تبت سے
شروع ہوکر شمال میں گلگت بلتستان کے راستے خیبر پختونخواہ میں سے گزرتا ہے ۔ خیبر پختونخوا کا ہزارہ ڈویژن اس دریا کے مشرق
کی طرف واقع ہے ، جبکہ صوبہ کے باقی تمام اضلاع دریائے سندھ کے مغرب کی طرف واقع
ہیں ۔ دریائے سندھ خیبر پختونخوا کے پہاڑوں سے اُتر کر پنجاب اور سندھ کے میدانوں
سے ہوتا ہوا پاکستان کے جنوب میں ضلع حیدرآباد سے ہوتا ہوا ٹھٹہ کے
قریب بحیرہ عرب میں شامل ہوجاتا ہے ۔
تربیلا ڈیم |
دریائے سندھ پر تربیلا (ضلر ہری پور، خیبر پختونخوا) کے
مقام پر ایک بڑا ڈیم بنایا گیا ہے جو موجودہ وقت میں دریائے سندھ پر تعمیر شدہ
واحد بڑا ڈیم ہے ۔ اس کے علاوہ غازی
بروتھا (غازی – بمقام تربیلا اور بروتھا— ممقام اٹک) جاری پانی کا پراجیکٹ
بھی دریائے سندھ پر واقع ہے ۔ خیبر پختونخوا میں ضلع مانسہرہ میں اسی دریا پر
الائی خوڑ ، شانگلہ میں خان خوڑ اور کوہستان میں ڈوبڑ خوڑ کے نام سے چھوٹے ڈیم بنا کر بجلی پیدا کی جارہی ہے ۔
دریائے سندھ پر تعمیر شدہ بیراج اور ڈیم |
دریائے سندھ پر کالاباغ کے قریب جناح بیراج تعمیر کیا گیا ہے ۔ جو آپباشی کے علاوہ 96
میگاواٹ بجلی بھی پیدا کرتا ہے ۔ چشمہ بیراج بھی اسی دریا پر میانوالی میں کالاباغ
ہی کے قریب واقع ہے ۔ یہ بیراج پاکستان میں پا نی کا تیسرا بڑا ذخیرہ ہے ۔ اس بیراج سے آبپاشی ، سیلابی پانی کو روکنے کے
علاوہ 184 میگاواٹ بجلی بھی پیدا ہوتی ہے ۔ چشمہ ہی کے مقام پر دریائے سندھ پر ایک
چھوٹے سے ڈیم کی بدولت قلیل مقدار میں بجلی پیدا کی جارہی ہے ۔ اس کے علاوہ دریائے
سندھ پر تونسہ بیراج (ضلع مظفر گڑھ ، پنجاب) ، گدو بیراج (ضلع کشمور ، صوبہ سندھ ) ، سکھر بیراج (سکھر ، صوبہ سندھ) اور کوٹری
بیراج (حیدرآباد ، صوبہ سندھ ) واقع ہیں ۔
اس کے علاوہ دریائے سندھ پر گلگت
بلتستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف مقامات پر کئی ایک چھوٹے بڑے ہائیڈل پراجیکٹ
شروع کرائے گئے ہیں ۔
بہت اچھی معلوماتی تحریرہے
ReplyDeleteمحمد عاصم میکن ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
روزنامہ خبریں /چینل فائیومیانوالی
بہترین معلوماتی رپورٹ
ReplyDeleteمحمد عاصم میکن ایڈووکیٹہائی کورٹ
روزنامہ خبریں /چینل فائیو5میانوالی