پاکستان بننے سے پہلے ہی 1940 میں دریائے
سندھ پر کالاباغ کے مقام کو ڈیم کی تعمیر کے لیے مناسب قرار دیا گیا
تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمدعلی جناح نے بھی
میانوالی کے قریب ڈیم بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا ۔ دسمبر
1948 میں پاکستان کی کابینہ نے میانوالی اور کرنافلی (مشرقی بنگال) میں جلد از جلد
ڈیموں کی تعمیر کی سفارش کی ۔ کالا
باغ ڈیم کے منصوبے کا پہلا باقاعدہ سروے ورلڈ بینک کے تعاون سے ملک غلام
محمد (پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل) کے دور حکومت میں 1953ء میں شروع
ہوا ۔
لیکن آنے والے چند سالوں میں پاکستان سیاسی انتشار کا
شکار رہا اور ملک میں ڈیموں کی تعمیر کی طرف پیش رفت نہ ہوسکی ۔
سندھ طاس معاہدہ
آزادی کے وقت پنجاب کی
تقسیم سے نہری پانی کا مسئلہ پیداہ ہوا ۔ دریائے راوی اور ستلج کے ہیڈ ورکس بھارت
میں واقع ہیں اور ان ہیڈ ورکس سے نکلنے والی نہریں پاکستانی علاقے کو سیراب کرتی ہیں
۔ یکم اپریل 1948 کو بھارت نے بغیر کسی
پیشگی اطلاع کے ان دریاؤں میں پاکستان کی
طرف آنے والا پانی بند کردیا ۔ حکومت پاکستان کی کوششوں سے یہ
سندھ طاس معاہدہ -- کراچی 1960 |
مسئلہ عارضی طور سے
حل ہوا ۔
یہ تنازعہ ستمبر
1960 میں اُس وقت مستقل بنیادوں پر حل ہوا جب ورلڈ بینک
کے تعاون سے دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا فیصلہ سندھ طاس معاہدے کے تحت
ہوا ۔
اس معاہدے کی رُو سے دونوں ممالک کے درمیان چھ بڑے دریاؤں کی تقسیم عمل میں
آئی ۔ تین مغربی دریا یعنی دریائے سندھ ، جہلم
اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے جبکہ تین
مشرقی دریاؤں یعنی راوی ، ستلج اور بیاس
کے پانی پر بھارت کو حقدار قراردیا گیا ۔
اسی کے ساتھ ایک دوسرا معاہدہ سندھ طاس ترقیاتی فنڈ کے نام سے
ہوا ۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو مشرقی دریاوں تک پانی کی ترسیل کے لیے مغربی نہروں سے رابطہ نہریں ، ڈیم اور ہنڈ
ورکس قائم کرنے کے لیے مالی امداد اور
مشرقی دریاؤں میں دس سال تک پانی کا بہاؤ شامل تھا ۔ نتیجتاً پاکستان نے دو
ڈیم (تربیلا اور منگلا) ، پانچ ہیڈ ورکس اور دریاؤں کے درمیان 400 کلومیٹر لمبی کئی
رابطہ نہریں تعمیر کیں ۔ جبکہ کالاباغ ڈیم
کا منصوبہ متنازعہ ہونے کی وجہ سے التوا کا شکار رہا ۔
مختلف حکومتوں کے دور میں کالاباغ ڈیم کا منصوبہ
ایوب خان نے کالاباغ ڈیم پر کام شروع کرنا چاہا لیکن منصوبے پر عملی کام نہ ہوسکا ۔
یحییٰ خان کے دور حکموت (1969 تا 1971) میں ملک کے سیاسی حالات ڈیم جیسے بڑے منصوبوں
کو شروع کرنے کے لیے سازگار نہیں تھے ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں چونکہ منگلہ اور تربیلا ڈیم مکمل ہوچکے تھے اس
لیے اس وقت ملک میں بجلی کی پیداوار ضرورت کے مقابلے میں وافر مقدار میں تھی جبکہ نئے تعمیر شدہ ڈیموں سے زرعی پانی کی کمی کو پورا کیا جارہا تھا ۔ بھٹو حکومت کی توجہ نئے آئین کے تحت قومی اداروں کے قیام اور ان کے استحکام پر
رہی ۔
1983 کے بعد
فوجی
حکمران جنرل ضیاء الحق نے 1983 میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ کیا ۔ ابتدائی امور
نپٹانے کے بعد اگلے سال ڈیم پر عملی کام آغاز ہوا اور 1987 تک اس کا تفصیلی
سروے مکمل ہوا اور بنیادی امور جیسے رہائشی عمارات ، لیبارٹریاں
اور ٹنل کی تعمیر کی گئی ۔ ابتدائی سروے رپورٹ میں اس ڈیم کی سطح سمندر سے اونچائی 1000 فٹ تھی ۔
بعد میں خیبر پختونخوا حکومت اور عوام کے اسرار پر (ضلع نوشہرہ کے ڈوبنے کے خطرے کے پیش نظر ) اس کی اونچائی کم کرکے 915 فٹ
کردی گئی ۔ شدید سیاسی اختلافات کی وجہ سے ڈیم کے سائٹ پر 1989 سے کام بند کردیا
گیا ۔ ضیاءالق کی حکومت کے بعد اگلے گیارہ سالوں میں پاکستان میں دو دفعہ پیپلز پارٹی اوردو
دفعہ مسلم لیگ ن کی جمہوری حکومتیں رہیں ۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ کے عوام میں مقبول جماعت ہونے کی وجہ سے
کبھی اس ڈیم کی تعمیر کا نہیں سوچا ۔ البتہ
میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت (1997 تا 1999) میں کالاباغ ڈیم بنانے کا اعلان کیا مگر بات اعلان سے آگے نہ بڑھ سکی ۔
پانی کی
تقسیم کا معاہدہ 1991
1991 میں نواز شریف کے دورحکومت میں صوبوں کے درمیان
نہری پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا ۔ اس معاہدے کے تحت نہروں کے پانی کے استعمال
کو تحفظ فراہم کیا گیا اور دریاؤں کے پانی (جن میں سیلاب اور اضافی پانی بھی شامل
ہے ) کی متوازن تقسیم کا نظام قائم کیا گیا ۔ 1992 میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے خود
مختار ادارہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) قایم کیا گیا ۔ بدقسمتی
سے معاہدے کے کچھ ہی عرصے بعد سندھ اور پنجاب میں پانی کی
تقسیم پر پھر اختلافات پیدا ہوگئے ۔
2000ء کے بعد
پرویز مشرف نے 2004 میں کالاباغ ڈیم کے تعمیر کی بات کی مگر
چھوٹے صوبوں کی طرف سے شدید اختلافات کی وجہ سے پیشرفت نہ ہوسکی ۔ 2008 میں اُس
وقت کے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ
پرویز اشرف (پیپلز پارٹی) نے اختلاف رائے کے پیش نظر کالاباغ ڈیم نہ بنانے کا
اعلان کردیا مگر 2010 کے سیلاب کی تباہ کاریوں نے کالاباغ ڈیم کی بحث ایک
مرتبہ پھر تازہ کردی اور سیلاب کے نقصانات سے بچنے کے لیے کالاباغ ڈیم کی اہمیت کے
حق اور مخالفت میں بیانات آنے شروع ہوئے ۔
نوشہرہ ، خیبر پختونخوا 30 جولائی 2010 ۔۔ 2010 کے سیلاب کے دوران |
2013 میں انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے حکومت میں آکر کالاباغ ڈیم کی
تعمیر کے وعدے کئے ۔ لیکن حکومت کے قیام
کے بعد میاں نواز شریف کی سوچ تبدیل ہوگئی اور پچھلے سالوں کی طرح اس سال (جون
2015) میں منظور ہونے والے بجٹ میں بھی
کالاباغ منصوبے کو اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے نظر انداز کردیا گیا جبکہ پانی و بجلی کے
دیگر منصوبوں کے لیے خطیر رقوم مختص کی گئی ہیں ۔ موجودہ وقت (جون 2015 ) میں صرف مسلم لیگ ق کے رہنما کالاباغ ڈیم کی حمایت میں مہم چلارہے ہیں ۔
مختلف جمہوری ادوار میں خیبر پختونخوا ، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیاں
کالا باغ ڈیم کی مخلافت میں کئی بار قراردادیں منظور کرچکی ہیں جبکہ پنجاب اسمبلی
نے ڈیم کے حق میں قرارداد منظور کی ہے ۔
عدالتی کاوشیں
گزشتہ دور حکومت میں کالاباغ
ڈیم کی تعمیر کے لیے عدلیہ کا سہارا بھی لیا جا چکا ہے تاکہ فنی اور سیاسی
اختلافات کو عدلیہ کی احکامات کے ذریعے حل
کرنے کی کوشش کی جائے ۔ نومبر 2012 میں
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے دائر کی گئی چھ
درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 1991 میں مشترکہ مفادات کونسل کی سفارش کی
بنا پر وفاقی حکومت کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی پابند ہے ۔
2014 میں لاہور ہائی کورٹ میں عدالت عالیہ کے
احکامات کے باوجود کالاباغ ڈیم کی عدم تعمیر پر وزریراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ
کے خلاف توہیں عدالت کی درخواست بھی دائر
کی گئی ۔ جنوری 2015 میں سپریم کورٹ
نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ڈیم کی تعمیر کا
حکم دینا عدالت کا کام نہیں بلکہ حکومت کا
کام ہے ۔
آئین اور بڑے ڈیموں کی تعمیر
اٹھارویں آئینی ترمیم (منظور شدہ اپریل 2010) کے بعد آئین کے آرٹیکل 157 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی صوبے
میں پن بجلی کے پاور سٹیشن کی تعمیر کا
فیصلہ کرنے سے قبل متعلقہ صوبائی حکومت سے مشاورت کرے گی ۔ مزید کہا گیا کہ وفاقی اور صوبائی
حکومت کے درمیان تنازعہ کی صورت میں مشترکہ مفادات کونسل تنازعہ کا تصفیہ کرے گی ۔
حرف آخر
پاکستانی قوم 1953 سے کالاباغ ڈیم پر موجود اختلافات کے خاتمے کی منتظر ہے ۔ واضح
رہے کہ سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کالاباغ ڈیم کے حوالے سے کافی
تحفظات پائے جاتے ہیں اور تینوں صوبوں کی اسمبلیاں بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر
کے خلاف قرادادیں منظور کرا چکی ہیں ۔ جبکہ پنجاب اسمبلی نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ
وہ کالاباغ ڈیم کی فوری تعمیر کے لیے چاروں صوبوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرے
کیونکہ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ناصرف قابل عمل ہے بلکہ ملک کے مفاد میں بھی ہے ۔
جاری ہے ۔