Saturday, 9 May 2015

بنگلہ دیش کا قیام : پہلا حصہ ( بنگال کی تاریخی حیثیت – 1946 تک ) , Independence of Bangladesh : Part One (History of Bengal -- up to 1946 ; Urdu)

مشرقی و مغربی پاکستان
خطہ بنگال متحدہ ہندوستان کا سب سے  بڑا صوبہ تھا ۔  1947 میں تقسیم ہندوستان کے وقت صوبہ بنگال  کو  دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ۔   بنگال کا مسلم آبادی والا مشرقی حصہ (موجودہ بنگلہ دیش) پاکستان کا صوبہ  بنا ۔   1955  میں ون یونٹ سکیم کے تحت مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو  صوبوں کو ملا کر ایک صوبہ بنادیا گیا ۔  اس طرح  ملک کے دو صوبے بنے ،  ایک مشرقی پاکستان   اور  دوسرا مغربی مغربی پاکستان۔ آزادی کے کچھ عرصہ بعد  ملک کے دونوں حصوں میں بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں آزادی کی تحریک چلی اور آخر کار 1971 میں ہندوستان کی مداخلت سے مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔
بلاگ کے اس پہلے حصے میں بنگال کی مختصر تاریخ  اور  آزادی کے مختلف منصوبوں میں بنگال کی حیثیت کے بارے میں معلومات درج ہیں ۔  قیام پاکستان سے لے بنگلہ دیش کی آزادی تک کے واقعات دوسرے بلاگز میں ہیں۔

بنگال

  (بنگال (بنگلہ دیش  اور مغربی بنگال
خطہ بنگال جنوبی ایشیا کے شمال مشرق میں واقع ہے ۔ بنگال کے شمال میں ہندوستانی ریاستیں(  آسام ، میگھالیہ و سکم) اور نیپال و بھوٹان واقع ہیں جبکہ جنوب میں خلیج بنگال ہے۔ بنگال کے مشرق  میں ہندوستانی ریاستیں ( آسام   ، میزورام و  تری پورہ) کے علاوہ  میانمار (برما) واقع ہے جبکہ مغرب میں ہندستانی ریاستیں (بہار ،  جھار کھنڈ  و    اڑیسہ    )  واقعہ ہیں ۔ صوبہ بنگال کو 1947 میں تقسیم ہندوستان کے وقت  مشرقی اور مغربی دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ بنگال کا مشرقی حصہ (موجودہ بنگلہ دیش)  پاکستان کا صوبہ بنا  جبکہ مغربی بنگال بھارت کا حصہ بنا ۔    بھارتی حکومت نے بعد میں مغربی بنگال کے چند حصوں کو جدا کرکے تری پورہ کی ریاست بنائی ۔ اس کے علاوہ قرون وسطیٰ کے سلطنت بنگال کے علاقے موجودہ  ہندوستانی ریاست بہار،  جھارکھنڈ ،  آسام  اور  اڑیسہ میں منقسم ہوئے ہیں ۔  بنگلہ دیش ،  ہندوستانی  ریاست (صوبہ ) مغربی بنگال   اور  تری پورہ   میں زیادہ تر بنگلہ زبان بولنے والے بنگالی آباد ہیں  ۔  اس کے علاوہ  ہندستانی ریاست اُڑیسہ میں بھی بنگالی نسل کے لوگ آباد ہیں۔

بنگال کی تاریخ

تاریخ میں اس خطے کا پہلی دفعہ  ذکر سلطنت بنگہ (ایک ہزار سال قبل مسیح) کے نام سے ہے ۔ پھر یہ علاقہ پہلے بدھ مذہب اور پھر ہندو مذہب کے زیر اثر رہا۔

اورنگزیب نے تقریباً تمام ہندوستان پر حکومت کی

بنگال اور مسلمان حکمران

 دھلی سلطنت (قطب الدین ایبک ) کے جرنیل بختیار خلجی  نے  1202میں بنگال پر حملہ کیا  اور بنگال و بہار کو فتح کیا ۔ اس فتح سے نہ صرف  بنگال میں مسلم دور حکومت کا آغاز ہوا بلکہ  اسلام کی اشاعت بھی شروع ہوئی۔ چودھویں صدی میں بنگال پر شاہی بنگلہ کے نام  سے جاننے والے مسلمان سلطانوں نے حکومت کی۔ 1532  میں شیر شاہ سوری بنگال کا حکمران بنا۔  1576  مغل شہنشاہ اکبر نے بنگال کے پشتون حکمران داؤد خان کرانی کو شکست دی اور  بنگال مغل سلطنت کا صوبہ بنا۔ مغل دور میں بنگال کے  گورنر کو صوبہ دار کہا جاتا تھا ۔ اس دوران بنگال میں کئی ایک چھوٹی ہندو ریاستیں بھی موجود تھیں۔  ہندو بادشاہ ہیمو کی مختصر حکمرانی کے علاوہ بنگال 1575 سے اورنگزیب کی وفات (1707) تک مغل حکمرانوں کے طابع رہتے ہوئے اندرونی طور سے خود مختار رہا۔

 اورنگزیب عالمگیر کی وفات  (1707 )کے بعد بنگال ، بہار اور اڑیسہ میں آزاد حکومتیں قائم ہوئی۔ 1707 میں بنگال کے گورنر  مرشد قلی خان  مغل حکومت ( اورنگزیب) کے اثر سے  باہر نکل آئے اور بنگال کے  نواب ناظم کہلائے۔ نواب نے اپنے نام سے آباد شہر مرشد آباد کو دارالحکومت بنایا۔ بنگال کے چھٹے اور آخری خودمختار نواب محمد سراج الدولہ کو جنگ پلاسی ( 1757 ) میں انگر یز  کے ہاتھوں شکست ہوئی جس کے بعد پہلے بنگال اور پھر رفتہ رفتہ پورے ہندوستان پر انگریز حکومت قائم ہوئی۔ 1765 میں بنگال میں انگریزوں کے زیر اثر دہری حکومت قائم ہوئی۔ 1793 میں نواب سے برائے نام  گورنری بھی واپس لے لی گئی اور وہ انگریز کا پنشن خوار بنا۔ 1890 میں بنگال کے نواب کا عہدہ ہی ختم کردیا گیا۔  اس کے بعد   1947  تک نواب بہادر آف مرشد آباد نے صرف خطاب کی حد تک مرشد آباد شہر پر حکومت کی۔


بنگال اور انگریز حکومت

 واسکو ڈے گاما (پرتگالی سیاح) نے 1498 میں یورپ سے ہندوستان تک کا سمندری راستہ دریافت کیا۔ اس کے بعد پرتگالی تاجر بنگال تک پہنچنے لگے۔ بنگال کے  نواب نے پہلے 1673 میں فرنچ ایسٹ انڈیا کمپنی کو چندری ناگور میں اور پھر 1690 میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کو کلکتہ میں تجارتی مراکز کھولنے کی اجازت دی۔ 1727 میں گورنر مرشد قلی خان کی وفات کے بعد غیر یقینی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرہٹوں نے بنگال پر پے در پے حملے کئے اور اڑیسہ کے علاوہ بنگال کے چند علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کرانے میں کامیاب رہے۔
رابرٹ کلائیو نے میر جعفر کی غداری  کی بدولت کامیابی حاصل کی


 1757 میں سراج الدولہ کو جنگ پلاسی میں شکست دینے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو صوبہ بنگال میں مالیہ کی وصولی کے اختیارات مل گئے ۔ 1765 میں  صوبہ بنگال ( بشمول بہار اور اُڑیسہ ) کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ 1770 میں بنگال شدید قحط کا شکار ہوا جسے میں لاکھوں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ 1773 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت انگریز حکومت کا باقاعدہ  آغاز ہوا۔   بنگال کے شہر کلکتہ کو برطانوی ہندوستان کا دارالحکومت قرار دے کر وارن ہیسٹنگ کو پہلا گورنر جنرل نامزد کیا گیا۔ انگریزوں کے زیر قبضہ ہندوستانی علاقوں کو تین حصوں  چنائے (سابقہ مدراس) ،  ممبئی  (سابقہ بمبئی ) اور بنگال پریزیڈنسی میں تقسم کیا گیا ۔ بنگال پریزیڈینسی کے  انتظامی وحدت میں  گنگا و جمنا کے کنارے واقع علاقوں سے لے کر پنجاب تک کے علاقے شامل تھے ۔


بنگال کی پہلی تقسیم 1905 

صوبہ بنگال آبادی اور رقبے  کے لحاظ سے ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ تھا۔  بیسویں صدی کے آغاز میں اس کی آبادی 8 کروڑ سے زیادہ نفوس پر مشتمل تھی۔ 1765 سے بنگال ، بہار اور اڑیسہ ایک ہی صوبہ تھے۔
ہندوستان کے وائسرائے لارڈ کرزن نےاکتوبر 1905 میں انتظامی سہولت کے پیش نظر بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے مشرقی بنگال اور آسام کا صوبہ تشکیل دیا گیا۔ مشرقی بنگال میں چھٹاگانگ، ڈھاکہ اور  راج شاہی ڈویژن کے علاوہ ضلع مالدا اور تری پورہ، سلہٹ و کومیلا شامل کئے گئے ۔ نئے صوبے کا دارالحکومت ڈھاکہ قرار پایا۔ دوسری طرف (مغربی) بنگال بشمول بہار و اڑیسہ سے ہندی زبان بولنے والے کچھ علاقے جدا کر کے مرکزی صوبہ جات میں شامل کردیے گئے ۔ بنگال کے اس انتظامی تقسیم سے مغربی بنگال ہندو اکثریت جبکہ مشرقی بنگال مسلم اکثریت کا صوبہ بنا ۔ انڈین نیشنل کانگریس اور بنگال کے ہندوؤں نے اس تقسیم کی شدید مخالفت کی۔ ہندو قوم پرستوں نے انگریزوں پر الزام لگایا کہ انگریز ہندوستانیوں کو تقسیم کرکے اُن پر حکومت کرنا چاہتے ہیں ۔

برطانوی بادشاہ جارج پنجم اور ملکہ ہندوستان کے دورہ پر 
تقسیم بنگال کے خلاف 'سوادیشی' تحریک چلاتے ہوئے  انگریزی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا۔ آخر کار دسمبر 1911  میں انگریز حکومت نے دباؤ میں آکر  برطانوی شہنشاہ جارج پنجم کے دورہ ہندوستان کے موقع پر بنگال کی تقسیم کا فیصلہ واپس لیا اور مارچ 1912 میں مشرقی و مغربی بنگال کو پھر یکجا کیا گیا۔ اور یوں ہندوستان کے شمال  مشرق میں  متحدہ بنگال کے علاوہ لسانی بنیادوں پر   آسام اور بہار و اُڑیسہ کے صوبے قائم کئے گیے۔ 1912 کے بعد تقسیم ہندوستان تک صوبہ بنگال کی سرحدات کو تبدیل نہیں کیا گیا۔ تنسیخ تقسیم بنگال کے اعلان نے مسلمانوں میں مایوسی پھیلادی اور انہیں اپنی سیاسی کمزوری کا احساس ہوا۔

برطانوی شہنشاہ نے دارالحکومت کو کلکتہ سے دھلی منتقل کرنے کا اعلان بھی کیا۔ 1947 میں بنگال کی مسلم ہندو بنیاد پر تقسیم نے لارڈ کرزن کی 1905 میں تقسیم بنگال کے فیصلے کو درست ثابت کیا۔


بنگال اور وحدت ہندوستان

بنگال -- بنگلہ دیش اورہندوستان کی ریاست مغربی بنگال

بنگال رقبے کے لحاظ سے ایک بہت بڑا اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے گنجان آباد علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ دریائے گنگا اور برہم پترا بنگال کو  برصغیر سے جدا کرتا ہے۔  اگرچہ جغرافیائی طور سے یہ برصغیر میں واقع ہے مگر یہ خطہ اپنی خصوصیات کی بدولت  بذات خود ایک علیحدہ مملکت کی حیثیت رکتھا ہے ۔  صوبہ بنگال اپنی سرسبز زمین اور وافر مقدار میں پانی کی بدولت ایک خود کفیل علاقہ رہا ہے ۔ دھلی سے دوری کی بنا پر یہ علاقہ مرکزی حکومت کے اثر سے آزاد رہا  ہے۔ بنگال میں 95 فیصد بنگلہ زبان بولنے والے بنگالی آباد ہیں ۔ بنگال اپنی پوری تاریخ میں صرف تین دفعہ مختصر مدت کے لیے متحدہ ہندوستان کا حصہ رہا ہے ، پہلے چندر گپت موریہ 250 ( قبل از مسیح)  کے دور میں ، دوسرے اورنگزیب کے دور حکومت میں اور تیسرے انگریزوں کے دور حکومت میں۔ اگرچہ 1947 میں مذہب کی بنیاد پر  بنگال کی تقسیم  ناگزیر ہوچکی تھی مگر اس کو ہزار میل دور دوسرے حصہ سے صرف مذہب کی بنیاد پر جوڑ کر ایک ملک بنانا ایک جذباتی سیاسی مطالبہ تھا۔ درجہ ذیل تاریخی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بنگال کو پاکستان کا حصہ بنانے کا فیصلہ غیر پختہ بنیادوں پر تھا۔

 بنگال اور خطبہ الہ آباد

 دسمبر 1930 میں  آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد سے خطاب کرتے ہوئے علامہ محمد اقبال نے کہا کہ"میں یہ چاہتا ہوں کہ صوبہ پنجاب، صوبہ شمال مغربی سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کی شکل دی جائے یہ ریاست برطانوی ہند کے اندر اپنی حکومت خوداختیاری حاصل کرے‘ خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم مسلم ریاست قائم کرنا ہی پڑے گی "۔  شاعر مشرق، مفکر اسلام حضرت علامہ محمد اقبال  کی سوچ کے مطابق صوبہ  بنگال  مسلمانوں کے لیے مجوزہ  ریاست سے باہر تھا۔

چودھری رحمت علی کا منصوبہ


  چودھری رحمت علی کا منصوبہ

چودھری رحمت علی نے مسلم لیگ کے رہنماؤں سے بھی بہت پہلے ہندوستان  کے مسلمانوں  کے لیے آزادی کا جو  منصوبہ پیش کیا اس کے تحت ہندوستان میں مسلمانوں کی تین بڑی ریاستوں کا ذکر تھا۔ ایک پاکستان (پنجاب، خیبر پختونخوا، کشمیر، سندھ و بلوچستان)، ، دوسرا بنگلستان (بنگال  و بہار کے مسلمانوں کے لیے ) اور تیسرا عثمانستان (ریاست حیدر آباد دکن) پر مشتمل تھا۔


بنگال اور قرارداد لاھور

بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی اے کے فضل حق نے جب 1940 میں قرارداد لاہور پیش کی تو قرارداد میں بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک سے زیادہ ریاستوں کی تشکیل کا مطالبہ تھا۔  جب اگلے سال مسلم لیگ نے اس قرارداد کو آئین کا حصہ بنایا تب بھی ایک سے زیادہ  ریاستوں والی بات موجو رہی۔ حتیٰ کہ اپریل 1946 میں قرارداد لاہور کے متن میں تبدیلی کرتے ہوئے ریاستوں کی جگہ ایک ریاست کا مطالبہ کیا گیا ۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے)   قرارداد لاہور1940 سے متعلق تاریخی غلط بیانیاں

کیبنٹ مشن پلان 1946 

 1946میں برطانوی حکومت کی طرف سے تین وزرا پر مشتمل ایک مشن ہندوستان آیا۔  اس مشن نے ہندوستان کے سیاسی مسائل کے حل کے لیے 16 مئی کو ایک منصوبہ پیش کیا ۔ اس منصوبے کے تحت ہندوستان کے صوبوں پر مشتمل ایک کُل ہند یونین قائم کرانا تھا۔ ہندوستان کے صوبوں کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز تھی۔ 

قائداعظم کیبنٹ مشن پلان کے اراکین کے ساتھ
گروپ الف:  ہندو اکثریت صوبے —اُڑیسہ ، بہار ، بمبئی ، سی پی ، مدراس اور  یو پی ۔
گروپ ب: شمال مغرب میں مسلم اکثریت صوبے—   پنجاب، سندھ، سرحد
گروپ ج: شمال مشرق میں واقع مسلم اکثریت کے صوبے— آسام اور بنگال

اس منصوبے کی رُو سے صوبوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ عرصہ دس سال بعد چاہیں تو کُل ہند یونین سے علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں۔ جون 1946 میں مسلم لیگ نے اس پلان کو منظور کرلیا۔ اس پلان کو منظور کرتے ہوئے مسلم لیگ نے شمال مغرب اور شمال مشرق میں مسلمان آبادی والے صوبوں پر مشتمل دو مختلف گروپوں سے اظہار رضامندی کردیا تھا۔


بنگال اور جدوجہد آزادی

بنگال نے ہندوستان کی آزادی کی تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا۔ بنگال کے لوگ باقی ہندوستان کی نسبت  تعلیم اور سیاست  کی اہمیت سے زیادہ آگاہ تھے ۔مسلم  لیگ کا قیام بھی ڈھاکہ میں 1906 میں عمل میں لایا گیا۔  ذیل میں آزادی کی تحریک میں بنگال کی اہم شخصیات اور ان کے کردار  پر  روشنی ڈالی گئی ہے۔

بنگال کی اہم شخصیات

راجہ رام موہن رائے

راجہ رام موہن رائے (1775 تا 1833): (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے) 

آپ نے ہندوستان میں نشاۃ ثانیہ کا آغاز 1828 میں  برہمو سماج تحریک سے کیا۔ آپ نے ہندوستانی معاشرے خصوصاً ہندو مذہب میں موجود جاہلانہ رسم و رواج کے خلاف بھر پور تحریک چلائی۔ آپ نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کے علاوہ کئی ایک اصلاحی اخبار و رسائل بھی شائع کئے۔

رابندر ناتھ ٹیگور

رابندر ناتھ ٹیگور (1861 تا 1941   ):


 عظیم شاعر و ادیب اور پہلا ایشائی جس نے 1913 میں ادب کا نوبیل انعام حاصل کیا۔  ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں ممالک کے ترانے آپ ہی کے قلم سے تحریر شدہ ہیں۔



سبھاش چندرا بوس

سبھاش چندرا بوس (1897 تا 1945): 


آزادی کا متوالہ جس نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور جاپان سے مل کر انگریز حکومت کے خلاف جدوجہد کی ۔آپ ہندوستان کی غیر مشروط اور مکمل آزادی کے خواہاں تھے ۔ 1938 میں کانگریس کے صدر بنے مگر  1939 میں کانگریس پارٹی سے آپ کے راستے جدا ہوئے ۔ آپ جاپان کے جہاز میں تائیوان کے حدود میں  فضائی حادثے کا شکار ہوئے۔



نواب سلیم اللہ
 : نواب سلیم اللہ  
نواب آف ڈھاکہ سر خواجہ سلیم اللہ خان 1971 کو ڈھاکہ میں پیدا ہوئے ۔ تقسیم بنگال 1905 کے بعد ڈھاکہ میں محمڈن پراونشل یونین بنانے کے علاوہ آپ نے مشرقی بنگال کے لیے صوبائی ایجوکیشنل کونسل تشکیل دی۔  آپ کی کوششوں سے دسمبر 1906 میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہوا جس میں  آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ قائم کرنے کی قرارداد پیش کی۔ آپ 1915 میں وفات پاگئے۔



مولوی ابولاقاسم فضل الحق 

مولوی فضل الحق
قرارداد لاہور کے پیش کنندہ شیربنگال مولوی ابولقاسم فضل الحق 1873 کو مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنی سیاسی زندگی میں کئی ایک اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ آپ کو قرارداد لاہور کی منظوری کے ایک سال بعد آل انڈیا مسلم لیگ سے نکال دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ آپ نے 1962 میں وفات پائی ۔


نوٹ : قارئین کو اس بلاگ میں  تصحیح ،  اعتراض  اور  اختلاف رائے  کی  مکمل آزادی ہے۔  

2 comments:

  1. سر خواجہ سلیم اللہ خان کی تاریخ پیدائش غالبآ 1871 ہے تصحیح فرمادیں

    ReplyDelete
  2. بنگال کی تاریخ پر اردو میں اہم کتب کونسی ہیں

    ReplyDelete