Thursday, 28 May 2015

کیا سیکولرازم کا مطلب لادینیت ہے ؟ What is the meaning of Secularism (Urdu)?

پاکستان میں  سیکولرازم کی اصطلاح کے معنی و مفہوم کوعموماً توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔  چند لوگوں نے اپنے خیالات کی ترویج کے لیے سیکولرازم سے نفرت پیدا کرنے کی کوشش میں اس کو لا دینیت ، دہریت اور بداخلاقی کا سرچشمہ قرار دیا ہے جو کہ سراسر غلط ہے ۔   سیکولرازم کیلئے موزوں اُردو اصطلاح" فکر پسندی"ہوسکتی ہے ۔ سیکولرازم کی اصطلاح دراصل چرچ  یعنی مذہب اور ریاست یعنی سیاست کو الگ کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے گویا سیکولرازم دراصل سیاست اور مذہب کے مابین تفریق کا نام ہے۔ 
سیکولر اور سیکولرازم خالص مغر بی اصطلاحیں ہیں۔ لاطینی زبان میں سیکولم کے لغوی معنی دنیا کے ہیں ۔ سیکولرازم کا مطلب   "ایسا سیاسی اور سماجی نظام ہے جس کی بنیادیں مذہب اور مابعد الطبیعیاتی نظریات کی بجائے عقل اور سائنسی اصولوں پر رکھی گئی ہوں"۔ نامور دانشور اور مصنف سبطِ حسن اپنی تصنیف 'نویدِ فکر'  میں سیکولرازم کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ’’قرونِ وسطیٰ میں رومن کتھولک پادری دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، ایک وہ پادری جو کلیساکے ضابطوں کے تحت خانقاہوں میں رہتے تھے۔ دوسرے وہ پادری جو عام شہریوں کی سی زندگی بسر کرتے تھے کلیسا کی اصطلاح میں آخرالذکر کو سیکولرپادری کہا جاتا تھاوہ تمام ادارے بھی سیکولر کہلاتے تھے جو کلیسا کے ماتحت نہ تھے اور وہ جائیداد بھی جسے کلیسا فروخت کر دیتا تھا۔ آج کل سیکولرازم سے مراد ریاستی سیاست یا نظم ونسق کی مذہب یا کلیسا سے علیحدگی ہے‘‘ (صفحہ69)۔
سیکولرازم سے مراد ریاستی معاملات کی مذہب یا کلیسا سے علیحدگی ہے نہ کہ مذہب کی نفی ہے ۔ سیکولرازم نہ تو کوئی مذہبی عقیدہ ہے اور نہ لادینیت کا نام ہے بلکہ ایک معاشرتی فلسفہ ہے جس کا مقصد مذہب کے بارے میں غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرنا ہے ۔ جس کے تحت ہر انسان کو اپنی سوچ ، عقیدے ، مذہب یا لادینیت کے کے تحت زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوتا ہے ۔ دوسروں کے عقیدے یا سوچ پر دباؤ نہیں ڈالا جاتا ہے ۔ سیکولرازم ایک عملی تدبیر ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی نزاع سے بچتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی امور میں مشترک بنیاد پر ملک کانظام چلا یاجائے۔
 تاریخی اعتبار سے سیکولرازم کی  سوچ یورپ میں عام آدمی کی زندگی میں چرچ کی بے جا مداخلت کے رد عمل کے طور پر ابھری ۔  اگرچہ سیکولر نظام کی بنیادیں انتہائی قدیم ہیں، لیکن سیکولر اور سیکولرازم کی اصطلاح پہلی مرتبہ 19ویں صدی کے ایک انگریز مفکر اور دانشور'ارج جیکب ہولی اوک'  نے وضع کی ۔  اوک کا موقف تھا :
1۔ انسان کی سچی رہنما سائنس ہے۔
 2۔ اخلاق مذہب سے جدا ایک قدیم حقیقت ہے۔
 3۔ علم وادراک کی واحد کسوٹی اور سند عقل ہے ۔
 4۔ ہر شخص کو فکر اور تقریر کی آزادی ملنی چاہیے۔
 5۔ ہم سب کو دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سیکولرازم کو معاشرتی نظام کے لیے درست سمجھنے سے ایک  دین دار انسان بے دین اور خدا پرست آدمی  دہریہ نہیں ہوجاتا ۔ سیکولرازم کا مقصد معاشرے کی صحت مند سماجی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنا نہیں ہے بلکہ سیکولرازم ایک فلسفہ حیات ہے جو خرد مندی اور شخصی آزادی کی تعلیم دیتا ہے اور تقلید وروایت پرستی کی بجائے عقل و علم کی اجتہادی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ انسان کو توہمات کے جال سے  باہر نکالا جائے ۔ اس کے تحت مذہب کو چرچ کی حدود اور انسان کی ذات تک محدود قرار دیا گیا۔ مزید برآں سیکولرازم مذہب کی نفی نہیں کرتا بلکہ یہ کسی بھی فرد کے مذہب پر عمل کے حق کا تحفظ کرتا ہے، جب تک کہ وہ اس اظہار کو مذہبی عبادات کے لیے مخصوص مقامات تک محدود رکھے یا اپنے گھر میں عمل کرے اور جب تک اُس کے مذہبی عقائد اور نظریات دوسرے لوگوں کے نقصان نہیں پہنچاتے یا تشدد وفساد کا باعث نہیں بنتے، سیکولرازم کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مغربی سیکولرازم معاشرتی زندگی کے معاملات میں مذہب کے کردار کو بھی تسلیم کرتا ہے مگر یہ اس کردار کو سیاسی شکل دینے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اس کے مطابق ایسا کرنے سے جدید سائنسی ، معاشی اور منطقی نظریات متاثر ہوتے ہیں۔ یہ وہ سیکولرازم ہے جس پر  مغربی ممالک عمل پیرا ہیں۔ سیکولرازم کی بنیاد اس کلئے پر قائم ہے کہ ضمیر و فکر اور اظہار رائے کی آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے ۔
ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی انگلش اردو ڈکشنری کے مطابق سیکولرازم اس معاشرتی اور تعلیمی نظام کے کہتے ہیں جس کی اساس مذہب کے بجائے سائنس پر ہو اور جس میں ریاستی امور کی حد تک مذہب کی مداخلت کی گنجائس نہ ہو۔ مولانا وحید الدین خان’ مسائل اجتہاد‘ میں لکھتے ہیں ’’حقیقت یہ ہے سیکولرازم کوئی مذہبی عقیدہ نہیں اس کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ مذہب کے بارے میں غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرنا ہے یہ ایک عملی تدبیر ہے اسکا مقصد یہ ہے کہ مذہبی نزاع سے بچتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی امور میں مشترک بنیاد پر ملک کانظام چلایاجائے ‘‘۔سیکولرازم یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ اس دنیاوی خوشی کے علاوہ اور کوئی خوشی نہیں ہو سکتی، البتہ ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہےجہاں انسانی سوچ اور فکر آزاد ہو جس کی بناپر انسان مظاہرِ قدرت اور کائنات کی تخلیق اور یہاں موجود فطرت کے کرشمات پر غورو فکر کرکے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔
جمہوریت اپنی فطرت میں ایک سیکولر نظامِ حکومت ہے ۔  اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں یورپ میں جمہوریت  کے فروغ نے آگے چل کر ساری دنیا میں مقبولیت حاصل کی ۔ جس طرح سیکولرازم حریت پسندی ،شخصی آزادی سوچنے سمجھنے کے لیے بہتر ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح جمہوریت بحیثیت سیاسی نظام سیکولر نظریات کی بنیاد پر ریاست اور معاشرے کے قیام کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے بھی ایک سیکولر معاشرے، آئین اور سیاسی ثقافت لازم ہیں۔
دوسری طرف مسلم اکثریتی ریاستوں میں سیکولر نظریات فروع نہیں پائے یہی وجہ ہے کہ 57 اسلامی ممالک کے عوام جمہوریت کو ترس رہے ہیں ۔ تقریباً سبھی مسلم ممالک خاندانی بادشاہتوں ، عسکری اور مذہبی آمریتوں یا غیر مستحکم جمہوری حکومتوں کے ماتحت ہیں یا پھر جمہوریت کے نام پر چند خاندانوں کی سیاسی اجارہ داری کے اسیر ہیں ۔ مسلم ممالک میں سیکولرازم کے غیر مقبول ہونے کے باعث جمہوری اقدار پروان نہیں چڑھ پائیں اور فکری سطح پر مسلم آبادی پسماندگی کا شکار ہے۔ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کو ترقی کے لیے محدود مذہبی جمہوریت یا موروثی بادشاہتوں کی جگہ مکمل سیکولر جمہوریت رائج کرنا ہوگی۔

سیکولر سٹیٹ

ایسی ریاست یا مملکت جہاں مذہب (چرچ) سیاست (ریاست) سے جُدا ہو۔  اور ریاست کی پالیسیوں پر مذہب کا براہ راست دخل انداز ہونا خارج از امکان ہو۔ سیکولر  ریاست کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہوتا۔ اس کے آئین کی رُو سے تمام مذاہب کو مساوی درجہ حاصل ہوتا ہے اور کسی خاص مذہب کے ماننے والوں  سے ترجیحی یا امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔ سیکولر سٹیٹ کا مقصد ملک میں مختلف مذاہب کے درمیان چپقلش کو ختم کرنا اور ان کے پیروؤں میں قومی یکجہتی پیدا کرنا ہے۔ سیکولر سٹیٹ کے لیے اُردو میں "لادینی ریاست" کی ترکیب مستعمل ہے ، لیکن یہ اس کا صحیح مترادف نہیں ہے۔بلکہ اس کا  صحیح مترادف  صُلح کُل بنتا ہے  ۔
سیکولرازم یعنی جمہوریت اور مساوات، آئینی اور نمائندہ حکومت ، فکر و ضمیر کی آزادی ، سائنسی سوچ اور شہری حقوق کی جدوجہد جاگیریت اور سرمایہ داری کے درمیان نظریاتی جنگ ہی کی مختلف شکلیں تھیں۔ اس جنگ میں ملوکیت کے علم برداروں کی طرح کلیسا نے بھی ظلم و استبداد کا ساتھ دیا اور ہر روشن خیال ، خرد افروز اور ترقی پنسد تحریک کی شدت سے مخالفت کی مگر تاریخ کے دھارے کو نہ ملوکیت روک سکی اور نہ کلیسائیت۔ انقلاب فرانس نے جاگیری نظام کے تینوں ستون یعنی ملوکیت ، نوابیت اور کلیسا گرادیے ۔ یورپ میں اگلے ایک صدی کے عرصہ میں معاشرے اور ریاست کی تشکیل سیکولر خطوط پر ہوئی۔  انقلاب فرانس (1789) کی وجہ سے سیکولر اداروں اور فکروں کے اثرات یورپ اور ایشیا میں نمایاں ہوئے۔ اس کے باعث یورپ میں ملوکیت ، فیوڈل ازم اور کلیسا کی بالادستی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی اور دنیا سرمایہ داری نظام کے عہد میں داخل ہوگئی۔وہ حقوق جو سیکولرازم کی جان ہیں : مثلاً تحریر و تقریر کی آزادی ، ضمیر و فکر کی آزادی ، پریس کی آزادی ، تنظیمیں بنانے کی آزادی اور اختلافِ رائے کی آزادی ، ورنہ جاگیری دور میں تو کسی نے ان حقوق کا نام بھی نہ سنا تھا۔  سیکولرازم کے رواج پانے سے کلیسا کی قائم کی ہوئی خوف و دہشت کی فضا ختم ہوگئی ۔ ہر شخص کو پہلی بار اس بات کا موقع ملا کہ وہ دوسرے مسائل کی مانن مذہبی مسائل پر بھی بلا خوف و خطر غور کرے اور جو عقائد و روسوم خلافِ عقل نظر آئیں ان کو رد کردے۔ 
تاریخی اعتبار سے امریکہ عہد جدید کی پہلی سیکولر ریاست ہے ۔ امریکہ کا نیا آئین جو 1788 میں منظور ہوا ، خالص سیکولر آئین ہے ۔ جس کے مطابق ریاست کے کسی عہدے کے لیے مذہب کی کوئی شرط نہیں اور امریکی کانگریس (پارلیمنٹ) مذہب کے قیام یا مذہب کی آزادی پر پابندی کے سلسلے میں کوئی قانون منظور نہیں کرے گی۔ امریکی آئین کے تحت پارلیمنٹ مذہب کے قیام یا مذہبی رسوم کے متعلق کوئی قانون وضع نہیں کرسکتی۔ اس طرح آئین نے ریاست اور کلیسا کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی ہے۔"  امریکہ کے علاوہ کئی ممالک سیکولر نظریات پر عمل پیرا ہیں ۔  سیکولر ریاستوں میں چین  ، جاپان ،  روس ، فرانس ، اٹلی ، بھارت ، ترکی ، لبنان ۔ ازبکستان کے علاوہ کئی ریاستیں شامل ہیں۔  
سیکولر معاشرے کے ممتاز ادارے مندرجہ ذیل ہیں:
1 ۔ مقننہ ۔ جو آزاد اور غیر جانبدار الیکشن کے ذریعے وجود میں آئے۔
2-  عدلیہ ۔ جس کو مرکزی اور خودمختاری کا مرتبہ حاصل ہو۔
3۔ انتظامیہ ۔جو عدلیہ اور عدالتی حاکمیت کی اطاعت کرتی ہو۔
4۔ پریس ۔ جو رائے عامہ کے اظہار و تشکیل کا مقبول حربہ ہے ۔
سیکولر ریاست میں ہر  شخص بلا لحاظ مذہب مساوی درجے کا شہری ہوتا ہے۔ سیکولر ریاست کسی شہری کے مذہبی معاملات میں دخیل نہیں ہوتی نہ کسی کو مذہبی عقائد کی پابندی کرنے یا نہ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ سیکولر ریاست آئین طور پر کسی مذہب سے وابستہ بھی نہیں ہوتی نہ کسی مخصوص فرقے کے عقاید کو فروغ دیتی ہے۔
نوٹ: قارئین کو اس بلاگ میں تصحیح اور اختلاف کا مکمل اختیار حاصل ہے ۔

Wednesday, 27 May 2015

راجہ رام موہن رائے، شخصیت اور خدمات -- (Raja Ram Mohan Roy, Personality and Services (Urdu


 راجہ رام موہن رائے   (1774  تا  1833) ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں برصغیر کے ایک بہت بڑے مصلح ِ قوم،  عربی  و  فارسی کے عالم  اور   مغربی تمدن کے پاسدار تھے۔ آپ  24   مئی  1774  کو  رادھانگر   بنگال میں پیدا ہوئے۔  آپ    کا  خاندان پانچ پشتوں سے صوبے کے مغل حکمرانوں سے وابستہ تھا۔  رواج  کے مطابق آپ   کی  ابتدائی  تعلیم عربی فارسی میں ہوئی۔  اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ  کو  پٹنہ  بھیج دیا گیا  جو اُ س وقت  اسلامی تعلیمات  کا  بڑا  مرکز تھا۔  وہاں آپ  نے قرآن شریف  ،   فقہ  ،   اسلامی دینیات  اور  علم مناظرہ  پر  عبور حاصل کیا ۔  نیز  آپ  کو  ارسطو  کے عربی  تراجم  اور  معتزلہ  کی تصانیف کے مطالعے  کا  بھی موقع ملا۔  آپ  نے صوفیوں  کی  کتابیں بھی پڑھیں  اور  وحدت الوجود  کے فلسفہ سے اتنے متاثر ہوئے  کہ  بُت پرستی  کی مخالفت آپ کی زندگی  کا  مشن بن گئی۔
رام موہن رائے   کو   برطانوی اقتدار سے سخت نفرت تھی  لیکن  کلکتہ میں قیام کے دوران  جب آپ  کو    انگریزی قوانین  اور  طریقِ حکومت کے مطالعہ  کا  موقع ملا   تو   آپ نے محسوس کرلیا   کہ  غیر ملکی غلامی  کا  طوق  انگریزی تعلیم  اور مغربی علوم کی تحصیل کے بغیر گلے سے  اُتار ا نہیں جاسکتا  ،  لہٰذا  آپ   نے انگریزی زبان سیکھی  جس سے واقفیت کے باعث مغربی علم و حکمت کے دروازے آپ   پر  کھل گئے۔   آپ    پندرہ  برس تک کمپنی سے وابستہ رہے  مگر  1815  میں پنشن لے لی  اور  سارا   وقت سماجی کاموں میں صرف کرنے لگے ۔  آپ   ذات پات کی تفریق  ،   بُت پرستی  اور  ستی کے رسم کے سخت خلاف تھے  ،   چنانچہ ہندوستانی معاشرے خصوصاً   ہندو  مذہب میں  موجود جاہلانہ رسم و رواج میں اصلاح کی غرض سے آپ  نے  1828 میں  برہمو سماج   کی تنظیم قائم کی   اور  ہندو معاشرے میں  جو  برائیاں پیدا ہوگئی تھیں  ان کے خلاف مہم شروع کردی۔  یہ مکمل طور سے ایک غیر سیاسی تحریک تھی ۔
آپ نے ہندو مت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کوششیں کیں ۔   آپ  بُت پرستی کے خلاف تھے  اور  خدا  کی وحدانیت  پر  یقین رکھتے تھے ۔  آپ نے ہندوستان کے عوام  کو  بتایا  کہ  مذہبی  کتابیں  خود  پڑھیں ۔ آپ نے ہندو سماج میں موجود ستی  جیسی  قبیح رسم کے خلاف  اور  بیواؤں  کی  دوبارہ  شادی کے حق میں تحریک چلائی ۔  آپ نے کئی رفاحی ادارے جیسے  کہ  یتیم خانے ،  مکتب  اور  شفا خانوں کے علاوہ   لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے سکول قائم کئے  اور  مختلف مذاہب میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کوششیں کیں ۔
  آپ  نے سول برس کے سِن میں ایک کتاب  "تحفتہ الموحدین"  فارسی میں لکھی (دیباچہ عربی میں تھا) ۔  اس کتاب میں  ہندو  بُت  پرستی  پر سخت اعتراضات کئے گئے تھے ۔  اتفاق سے کتاب کے مسودے پر  ان کے والد  کی نظر پڑی  تو  وہ  آگ بگولہ ہوگئے  اور  کشیدگی  اتنی بڑھی  کہ رام موہن رائے  کو  گھر  چھوڑنا  پڑا۔  اس کے باوجود  رام موہن رائے  کو  باپ کے جذبات  کا  اتنا  احترام تھا   کہ  رسالے کو  ان  کی زندگی میں شائع نہیں کیا۔
آپ نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کے  علاوہ  کئی  ایک اصلاحی  اخبار  و  رسائل بھی شائع کئے۔  ہندوستان میں پہلا غیر انگریزی اخبار  فارسی زبان میں 1822 میں آپ نے  شائع کیا  ۔    فارسی زبان  کے اس پہلے اخبار مراۃ الاخبار کے مالک  و  اڈیٹر  راجہ رام موہن رائے تھے۔ اس کے ایک سال بعد   اردو کا پہلا اخبار جاری ہوا ۔ اس اخبار  جامِ جہاں نُما  کے ایڈیٹر و مالک منشی سدا سُکھ تھے اس طرح ہندوستان میں  فارسی   اور  اردو  زبان کے پہلے اخبارات کے ایڈیٹر غیر مسلم تھے۔  آپ ہندوستانیوں کی ترقی کے لیے جدید  ،   روشن خیال  اور  آزاد نظام تعلیم جس میں ریاضی ،  نیچرل فلسفہ ،   کیمسٹری ،   علم الابدان  اور  دوسرے سائنسی مضامین کے فروغ  کے داعی تھے۔  برصغیر میں افکارِ تازہ   کی  نمود   اگر  سب سے پہلے بنگالیوں  اور  ہندوستانیوں  میں ہوئی  تو  یہ  آپ   کی  صحافتی  اور  تعلیمی سرگرمیوں   کا  فیض تھا ۔    آپ  کے  زیادہ تر  مقلد  و  پیرو  امیر   لوگ تھے ۔
سر سید احمد خان کے بقول  "راجہ رام موہن رائے  نہایت لائق  اور  ذی علم  اور  متین ،  مہذب  و  با اخلاق  شخص تھے۔ آپ  دلی آئے  اور  بادشاہ کی ملازمت اختیار  کی  اور  آپ  کو  راجہ  کا خطاب بادشاہ کی طرف سے دیا گیا  اور  آخر کار  آپ   بادشاہ کے وکیل کی حیثیت سے لندن گئے ۔  راقم  (یعنی سرسید احمد خان ) نے آپ  کو  متعدد  بار  دربارِ شاہی میں دیکھا ہے  اور  دلی کے لوگ یقین کرتے تھے  کہ  ان کو  مذہبِ اسلام کی نسبت زیادہ رجحان خاطر ہے۔ "  راجہ رام موہن رائے کے انہیں اوصاف کی شہرت کی بدولت  اکبر شاہ ثانی نے آپ    کو  دلی  بلوایا  اور  لندن اپنا سفیر بنا کر بھیجا  کہ  آپ  بادشاہ  کی  پنشن میں اضافے  کی  کوشش کریں ۔  راجہ رام موہن رائے بادشاہ   کی   پنشن  میں  تین لاکھ روپیہ سالانہ  اضافہ کروانے میں کامیاب ہوگئے ،  مگر  واپسی سے پہلے برسٹل میں بیمار پڑ گئے    اور  وہاں ہی وفات پاگئے۔ آپ  کی 
لاش وہیں دریا کے کنارے نذرِ آتش کردی گئی ۔   راجہ  کا  جو  خطاب آپ    کو  مغل حکمران  اکبر شاہ ثانی نے دیا تھا  ،    انگریزوں نے اس خطاب کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ 

افسوس ہے کہ ہماری نئی نسل عربی فارسی کے اس عالم ،  بت پرستی کے دشمن  اور  سلطنت مغلیہ کے وفادار خادم کے نام سے بھی واقف نہیں ۔

Saturday, 9 May 2015

بنگلہ دیش کا قیام : پہلا حصہ ( بنگال کی تاریخی حیثیت – 1946 تک ) , Independence of Bangladesh : Part One (History of Bengal -- up to 1946 ; Urdu)

مشرقی و مغربی پاکستان
خطہ بنگال متحدہ ہندوستان کا سب سے  بڑا صوبہ تھا ۔  1947 میں تقسیم ہندوستان کے وقت صوبہ بنگال  کو  دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ۔   بنگال کا مسلم آبادی والا مشرقی حصہ (موجودہ بنگلہ دیش) پاکستان کا صوبہ  بنا ۔   1955  میں ون یونٹ سکیم کے تحت مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو  صوبوں کو ملا کر ایک صوبہ بنادیا گیا ۔  اس طرح  ملک کے دو صوبے بنے ،  ایک مشرقی پاکستان   اور  دوسرا مغربی مغربی پاکستان۔ آزادی کے کچھ عرصہ بعد  ملک کے دونوں حصوں میں بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں آزادی کی تحریک چلی اور آخر کار 1971 میں ہندوستان کی مداخلت سے مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔
بلاگ کے اس پہلے حصے میں بنگال کی مختصر تاریخ  اور  آزادی کے مختلف منصوبوں میں بنگال کی حیثیت کے بارے میں معلومات درج ہیں ۔  قیام پاکستان سے لے بنگلہ دیش کی آزادی تک کے واقعات دوسرے بلاگز میں ہیں۔

بنگال

  (بنگال (بنگلہ دیش  اور مغربی بنگال
خطہ بنگال جنوبی ایشیا کے شمال مشرق میں واقع ہے ۔ بنگال کے شمال میں ہندوستانی ریاستیں(  آسام ، میگھالیہ و سکم) اور نیپال و بھوٹان واقع ہیں جبکہ جنوب میں خلیج بنگال ہے۔ بنگال کے مشرق  میں ہندوستانی ریاستیں ( آسام   ، میزورام و  تری پورہ) کے علاوہ  میانمار (برما) واقع ہے جبکہ مغرب میں ہندستانی ریاستیں (بہار ،  جھار کھنڈ  و    اڑیسہ    )  واقعہ ہیں ۔ صوبہ بنگال کو 1947 میں تقسیم ہندوستان کے وقت  مشرقی اور مغربی دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ بنگال کا مشرقی حصہ (موجودہ بنگلہ دیش)  پاکستان کا صوبہ بنا  جبکہ مغربی بنگال بھارت کا حصہ بنا ۔    بھارتی حکومت نے بعد میں مغربی بنگال کے چند حصوں کو جدا کرکے تری پورہ کی ریاست بنائی ۔ اس کے علاوہ قرون وسطیٰ کے سلطنت بنگال کے علاقے موجودہ  ہندوستانی ریاست بہار،  جھارکھنڈ ،  آسام  اور  اڑیسہ میں منقسم ہوئے ہیں ۔  بنگلہ دیش ،  ہندوستانی  ریاست (صوبہ ) مغربی بنگال   اور  تری پورہ   میں زیادہ تر بنگلہ زبان بولنے والے بنگالی آباد ہیں  ۔  اس کے علاوہ  ہندستانی ریاست اُڑیسہ میں بھی بنگالی نسل کے لوگ آباد ہیں۔

بنگال کی تاریخ

تاریخ میں اس خطے کا پہلی دفعہ  ذکر سلطنت بنگہ (ایک ہزار سال قبل مسیح) کے نام سے ہے ۔ پھر یہ علاقہ پہلے بدھ مذہب اور پھر ہندو مذہب کے زیر اثر رہا۔

اورنگزیب نے تقریباً تمام ہندوستان پر حکومت کی

بنگال اور مسلمان حکمران

 دھلی سلطنت (قطب الدین ایبک ) کے جرنیل بختیار خلجی  نے  1202میں بنگال پر حملہ کیا  اور بنگال و بہار کو فتح کیا ۔ اس فتح سے نہ صرف  بنگال میں مسلم دور حکومت کا آغاز ہوا بلکہ  اسلام کی اشاعت بھی شروع ہوئی۔ چودھویں صدی میں بنگال پر شاہی بنگلہ کے نام  سے جاننے والے مسلمان سلطانوں نے حکومت کی۔ 1532  میں شیر شاہ سوری بنگال کا حکمران بنا۔  1576  مغل شہنشاہ اکبر نے بنگال کے پشتون حکمران داؤد خان کرانی کو شکست دی اور  بنگال مغل سلطنت کا صوبہ بنا۔ مغل دور میں بنگال کے  گورنر کو صوبہ دار کہا جاتا تھا ۔ اس دوران بنگال میں کئی ایک چھوٹی ہندو ریاستیں بھی موجود تھیں۔  ہندو بادشاہ ہیمو کی مختصر حکمرانی کے علاوہ بنگال 1575 سے اورنگزیب کی وفات (1707) تک مغل حکمرانوں کے طابع رہتے ہوئے اندرونی طور سے خود مختار رہا۔

 اورنگزیب عالمگیر کی وفات  (1707 )کے بعد بنگال ، بہار اور اڑیسہ میں آزاد حکومتیں قائم ہوئی۔ 1707 میں بنگال کے گورنر  مرشد قلی خان  مغل حکومت ( اورنگزیب) کے اثر سے  باہر نکل آئے اور بنگال کے  نواب ناظم کہلائے۔ نواب نے اپنے نام سے آباد شہر مرشد آباد کو دارالحکومت بنایا۔ بنگال کے چھٹے اور آخری خودمختار نواب محمد سراج الدولہ کو جنگ پلاسی ( 1757 ) میں انگر یز  کے ہاتھوں شکست ہوئی جس کے بعد پہلے بنگال اور پھر رفتہ رفتہ پورے ہندوستان پر انگریز حکومت قائم ہوئی۔ 1765 میں بنگال میں انگریزوں کے زیر اثر دہری حکومت قائم ہوئی۔ 1793 میں نواب سے برائے نام  گورنری بھی واپس لے لی گئی اور وہ انگریز کا پنشن خوار بنا۔ 1890 میں بنگال کے نواب کا عہدہ ہی ختم کردیا گیا۔  اس کے بعد   1947  تک نواب بہادر آف مرشد آباد نے صرف خطاب کی حد تک مرشد آباد شہر پر حکومت کی۔


بنگال اور انگریز حکومت

 واسکو ڈے گاما (پرتگالی سیاح) نے 1498 میں یورپ سے ہندوستان تک کا سمندری راستہ دریافت کیا۔ اس کے بعد پرتگالی تاجر بنگال تک پہنچنے لگے۔ بنگال کے  نواب نے پہلے 1673 میں فرنچ ایسٹ انڈیا کمپنی کو چندری ناگور میں اور پھر 1690 میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کو کلکتہ میں تجارتی مراکز کھولنے کی اجازت دی۔ 1727 میں گورنر مرشد قلی خان کی وفات کے بعد غیر یقینی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرہٹوں نے بنگال پر پے در پے حملے کئے اور اڑیسہ کے علاوہ بنگال کے چند علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کرانے میں کامیاب رہے۔
رابرٹ کلائیو نے میر جعفر کی غداری  کی بدولت کامیابی حاصل کی


 1757 میں سراج الدولہ کو جنگ پلاسی میں شکست دینے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو صوبہ بنگال میں مالیہ کی وصولی کے اختیارات مل گئے ۔ 1765 میں  صوبہ بنگال ( بشمول بہار اور اُڑیسہ ) کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ 1770 میں بنگال شدید قحط کا شکار ہوا جسے میں لاکھوں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ 1773 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت انگریز حکومت کا باقاعدہ  آغاز ہوا۔   بنگال کے شہر کلکتہ کو برطانوی ہندوستان کا دارالحکومت قرار دے کر وارن ہیسٹنگ کو پہلا گورنر جنرل نامزد کیا گیا۔ انگریزوں کے زیر قبضہ ہندوستانی علاقوں کو تین حصوں  چنائے (سابقہ مدراس) ،  ممبئی  (سابقہ بمبئی ) اور بنگال پریزیڈنسی میں تقسم کیا گیا ۔ بنگال پریزیڈینسی کے  انتظامی وحدت میں  گنگا و جمنا کے کنارے واقع علاقوں سے لے کر پنجاب تک کے علاقے شامل تھے ۔


بنگال کی پہلی تقسیم 1905 

صوبہ بنگال آبادی اور رقبے  کے لحاظ سے ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ تھا۔  بیسویں صدی کے آغاز میں اس کی آبادی 8 کروڑ سے زیادہ نفوس پر مشتمل تھی۔ 1765 سے بنگال ، بہار اور اڑیسہ ایک ہی صوبہ تھے۔
ہندوستان کے وائسرائے لارڈ کرزن نےاکتوبر 1905 میں انتظامی سہولت کے پیش نظر بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے مشرقی بنگال اور آسام کا صوبہ تشکیل دیا گیا۔ مشرقی بنگال میں چھٹاگانگ، ڈھاکہ اور  راج شاہی ڈویژن کے علاوہ ضلع مالدا اور تری پورہ، سلہٹ و کومیلا شامل کئے گئے ۔ نئے صوبے کا دارالحکومت ڈھاکہ قرار پایا۔ دوسری طرف (مغربی) بنگال بشمول بہار و اڑیسہ سے ہندی زبان بولنے والے کچھ علاقے جدا کر کے مرکزی صوبہ جات میں شامل کردیے گئے ۔ بنگال کے اس انتظامی تقسیم سے مغربی بنگال ہندو اکثریت جبکہ مشرقی بنگال مسلم اکثریت کا صوبہ بنا ۔ انڈین نیشنل کانگریس اور بنگال کے ہندوؤں نے اس تقسیم کی شدید مخالفت کی۔ ہندو قوم پرستوں نے انگریزوں پر الزام لگایا کہ انگریز ہندوستانیوں کو تقسیم کرکے اُن پر حکومت کرنا چاہتے ہیں ۔

برطانوی بادشاہ جارج پنجم اور ملکہ ہندوستان کے دورہ پر 
تقسیم بنگال کے خلاف 'سوادیشی' تحریک چلاتے ہوئے  انگریزی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا۔ آخر کار دسمبر 1911  میں انگریز حکومت نے دباؤ میں آکر  برطانوی شہنشاہ جارج پنجم کے دورہ ہندوستان کے موقع پر بنگال کی تقسیم کا فیصلہ واپس لیا اور مارچ 1912 میں مشرقی و مغربی بنگال کو پھر یکجا کیا گیا۔ اور یوں ہندوستان کے شمال  مشرق میں  متحدہ بنگال کے علاوہ لسانی بنیادوں پر   آسام اور بہار و اُڑیسہ کے صوبے قائم کئے گیے۔ 1912 کے بعد تقسیم ہندوستان تک صوبہ بنگال کی سرحدات کو تبدیل نہیں کیا گیا۔ تنسیخ تقسیم بنگال کے اعلان نے مسلمانوں میں مایوسی پھیلادی اور انہیں اپنی سیاسی کمزوری کا احساس ہوا۔

برطانوی شہنشاہ نے دارالحکومت کو کلکتہ سے دھلی منتقل کرنے کا اعلان بھی کیا۔ 1947 میں بنگال کی مسلم ہندو بنیاد پر تقسیم نے لارڈ کرزن کی 1905 میں تقسیم بنگال کے فیصلے کو درست ثابت کیا۔


بنگال اور وحدت ہندوستان

بنگال -- بنگلہ دیش اورہندوستان کی ریاست مغربی بنگال

بنگال رقبے کے لحاظ سے ایک بہت بڑا اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے گنجان آباد علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ دریائے گنگا اور برہم پترا بنگال کو  برصغیر سے جدا کرتا ہے۔  اگرچہ جغرافیائی طور سے یہ برصغیر میں واقع ہے مگر یہ خطہ اپنی خصوصیات کی بدولت  بذات خود ایک علیحدہ مملکت کی حیثیت رکتھا ہے ۔  صوبہ بنگال اپنی سرسبز زمین اور وافر مقدار میں پانی کی بدولت ایک خود کفیل علاقہ رہا ہے ۔ دھلی سے دوری کی بنا پر یہ علاقہ مرکزی حکومت کے اثر سے آزاد رہا  ہے۔ بنگال میں 95 فیصد بنگلہ زبان بولنے والے بنگالی آباد ہیں ۔ بنگال اپنی پوری تاریخ میں صرف تین دفعہ مختصر مدت کے لیے متحدہ ہندوستان کا حصہ رہا ہے ، پہلے چندر گپت موریہ 250 ( قبل از مسیح)  کے دور میں ، دوسرے اورنگزیب کے دور حکومت میں اور تیسرے انگریزوں کے دور حکومت میں۔ اگرچہ 1947 میں مذہب کی بنیاد پر  بنگال کی تقسیم  ناگزیر ہوچکی تھی مگر اس کو ہزار میل دور دوسرے حصہ سے صرف مذہب کی بنیاد پر جوڑ کر ایک ملک بنانا ایک جذباتی سیاسی مطالبہ تھا۔ درجہ ذیل تاریخی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بنگال کو پاکستان کا حصہ بنانے کا فیصلہ غیر پختہ بنیادوں پر تھا۔

 بنگال اور خطبہ الہ آباد

 دسمبر 1930 میں  آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد سے خطاب کرتے ہوئے علامہ محمد اقبال نے کہا کہ"میں یہ چاہتا ہوں کہ صوبہ پنجاب، صوبہ شمال مغربی سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کی شکل دی جائے یہ ریاست برطانوی ہند کے اندر اپنی حکومت خوداختیاری حاصل کرے‘ خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم مسلم ریاست قائم کرنا ہی پڑے گی "۔  شاعر مشرق، مفکر اسلام حضرت علامہ محمد اقبال  کی سوچ کے مطابق صوبہ  بنگال  مسلمانوں کے لیے مجوزہ  ریاست سے باہر تھا۔

چودھری رحمت علی کا منصوبہ


  چودھری رحمت علی کا منصوبہ

چودھری رحمت علی نے مسلم لیگ کے رہنماؤں سے بھی بہت پہلے ہندوستان  کے مسلمانوں  کے لیے آزادی کا جو  منصوبہ پیش کیا اس کے تحت ہندوستان میں مسلمانوں کی تین بڑی ریاستوں کا ذکر تھا۔ ایک پاکستان (پنجاب، خیبر پختونخوا، کشمیر، سندھ و بلوچستان)، ، دوسرا بنگلستان (بنگال  و بہار کے مسلمانوں کے لیے ) اور تیسرا عثمانستان (ریاست حیدر آباد دکن) پر مشتمل تھا۔


بنگال اور قرارداد لاھور

بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی اے کے فضل حق نے جب 1940 میں قرارداد لاہور پیش کی تو قرارداد میں بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک سے زیادہ ریاستوں کی تشکیل کا مطالبہ تھا۔  جب اگلے سال مسلم لیگ نے اس قرارداد کو آئین کا حصہ بنایا تب بھی ایک سے زیادہ  ریاستوں والی بات موجو رہی۔ حتیٰ کہ اپریل 1946 میں قرارداد لاہور کے متن میں تبدیلی کرتے ہوئے ریاستوں کی جگہ ایک ریاست کا مطالبہ کیا گیا ۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے)   قرارداد لاہور1940 سے متعلق تاریخی غلط بیانیاں

کیبنٹ مشن پلان 1946 

 1946میں برطانوی حکومت کی طرف سے تین وزرا پر مشتمل ایک مشن ہندوستان آیا۔  اس مشن نے ہندوستان کے سیاسی مسائل کے حل کے لیے 16 مئی کو ایک منصوبہ پیش کیا ۔ اس منصوبے کے تحت ہندوستان کے صوبوں پر مشتمل ایک کُل ہند یونین قائم کرانا تھا۔ ہندوستان کے صوبوں کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز تھی۔ 

قائداعظم کیبنٹ مشن پلان کے اراکین کے ساتھ
گروپ الف:  ہندو اکثریت صوبے —اُڑیسہ ، بہار ، بمبئی ، سی پی ، مدراس اور  یو پی ۔
گروپ ب: شمال مغرب میں مسلم اکثریت صوبے—   پنجاب، سندھ، سرحد
گروپ ج: شمال مشرق میں واقع مسلم اکثریت کے صوبے— آسام اور بنگال

اس منصوبے کی رُو سے صوبوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ عرصہ دس سال بعد چاہیں تو کُل ہند یونین سے علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں۔ جون 1946 میں مسلم لیگ نے اس پلان کو منظور کرلیا۔ اس پلان کو منظور کرتے ہوئے مسلم لیگ نے شمال مغرب اور شمال مشرق میں مسلمان آبادی والے صوبوں پر مشتمل دو مختلف گروپوں سے اظہار رضامندی کردیا تھا۔


بنگال اور جدوجہد آزادی

بنگال نے ہندوستان کی آزادی کی تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا۔ بنگال کے لوگ باقی ہندوستان کی نسبت  تعلیم اور سیاست  کی اہمیت سے زیادہ آگاہ تھے ۔مسلم  لیگ کا قیام بھی ڈھاکہ میں 1906 میں عمل میں لایا گیا۔  ذیل میں آزادی کی تحریک میں بنگال کی اہم شخصیات اور ان کے کردار  پر  روشنی ڈالی گئی ہے۔

بنگال کی اہم شخصیات

راجہ رام موہن رائے

راجہ رام موہن رائے (1775 تا 1833): (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے) 

آپ نے ہندوستان میں نشاۃ ثانیہ کا آغاز 1828 میں  برہمو سماج تحریک سے کیا۔ آپ نے ہندوستانی معاشرے خصوصاً ہندو مذہب میں موجود جاہلانہ رسم و رواج کے خلاف بھر پور تحریک چلائی۔ آپ نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کے علاوہ کئی ایک اصلاحی اخبار و رسائل بھی شائع کئے۔

رابندر ناتھ ٹیگور

رابندر ناتھ ٹیگور (1861 تا 1941   ):


 عظیم شاعر و ادیب اور پہلا ایشائی جس نے 1913 میں ادب کا نوبیل انعام حاصل کیا۔  ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں ممالک کے ترانے آپ ہی کے قلم سے تحریر شدہ ہیں۔



سبھاش چندرا بوس

سبھاش چندرا بوس (1897 تا 1945): 


آزادی کا متوالہ جس نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور جاپان سے مل کر انگریز حکومت کے خلاف جدوجہد کی ۔آپ ہندوستان کی غیر مشروط اور مکمل آزادی کے خواہاں تھے ۔ 1938 میں کانگریس کے صدر بنے مگر  1939 میں کانگریس پارٹی سے آپ کے راستے جدا ہوئے ۔ آپ جاپان کے جہاز میں تائیوان کے حدود میں  فضائی حادثے کا شکار ہوئے۔



نواب سلیم اللہ
 : نواب سلیم اللہ  
نواب آف ڈھاکہ سر خواجہ سلیم اللہ خان 1971 کو ڈھاکہ میں پیدا ہوئے ۔ تقسیم بنگال 1905 کے بعد ڈھاکہ میں محمڈن پراونشل یونین بنانے کے علاوہ آپ نے مشرقی بنگال کے لیے صوبائی ایجوکیشنل کونسل تشکیل دی۔  آپ کی کوششوں سے دسمبر 1906 میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہوا جس میں  آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ قائم کرنے کی قرارداد پیش کی۔ آپ 1915 میں وفات پاگئے۔



مولوی ابولاقاسم فضل الحق 

مولوی فضل الحق
قرارداد لاہور کے پیش کنندہ شیربنگال مولوی ابولقاسم فضل الحق 1873 کو مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنی سیاسی زندگی میں کئی ایک اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ آپ کو قرارداد لاہور کی منظوری کے ایک سال بعد آل انڈیا مسلم لیگ سے نکال دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ آپ نے 1962 میں وفات پائی ۔


نوٹ : قارئین کو اس بلاگ میں  تصحیح ،  اعتراض  اور  اختلاف رائے  کی  مکمل آزادی ہے۔