Sunday, 15 March 2015

یومِ پاکستان (23 مارچ) کی حقیقت : (The Reality of Pakistan Day (Urdu)


یوم پاکستان کے موقع پر اسلام آباد میں فوجی پریڈ
پاکستان  میں سالہا سال سے   23 مارچ کے دن  کو  یوم پاکستان کی مناسبت سے منایا جاتا ہے ۔  یوم پاکستان   کا   آغاز   وفاقی  دارلحکومت میں 31  اور   چاروں  صوبائی دارالحکومتوں میں 21   توپوں کی سلامی سے ہوتا ہے۔  سرکاری عمارات  پر  پاکستان  کا  جھنڈا  لہرایا جاتا ہے۔ صبح کے وقت اسلام آباد میں فوجی  اور  سوِل پریڈ ہوتا ہے  (ملک میں خراب حالات کی وجہ سے  گزشتہ چند سال یہ تقریب شان و شوکت سے منعقد  نہ  ہوسکی۔  البتہ  2015  اور 2016 میں اس تقریب  کو  ماضی کی طرح  بھر پور طریقے سے منایا گیا  )۔   اس دن صدرِ پاکستان مختلف امور میں بہترین  کارکردگی  کا  مظاہرہ کرنے والے افراد میں قومی تمغے تقسیم کرتے ہیں۔ قائد اعظم  اور  علامہ اقبال کے مزارات  پر  گارڈ  کی  تبدیلی  کی تقریبات ہوتیں ہیں  اور  مزارات  پر   پھولوں کے گلدستے پیش کئے جاتے ہیں۔  اس دن  پورے ملک  میں عام تعطیل ہوتی ہے ۔ مختلف سرکاری  اور  غیر سرکاری ادارے قریبات  کا  اہتمام کرتے ہیں  اور  اخبارات ،  ریڈیو  اور  ٹی وی سے  اس دن  کی مناسبت سے قومی 
جذبے سے بھر پور پروگرام پیش ہوتے ہیں۔
14  اگست کو جشن آزادی کے بعد پاکستان کے لیے اس دن یعنی یوم پاکستان کی اہمیت زیادہ ہے ۔ یوم پاکستان کی تقریبات آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان ، قبائلی علاقہ جات کے علاوہ بیرون ملک موجود پاکستانی جوش و جذبے سے مناتے ہیں ۔ 

23 مارچ  کی تاریخی اہمیت بحثیت یوم پاکستان کے کیا ہے؟  کیا آپ وہی سوچ رہے ہیں  جو  آپ  کو  میڈیا  اور  نام نہاد  سیاستدان بتاتے چلے آئے ہیں۔  یہی  کہ  23 مارچ 1940  کو  قرارداد پاکستان منظور ہوئی  جس میں ہندوستان کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قائداعظم محمد علی جناح   کے  زیرسرکردگی اپنے لیے ایک جدا وطن کا حصول اپنا مقصد بنایا۔  اور  پھر سات سال کی جدوجہد کے بعد اگست 1947  کو  آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔  اور  یوں جو  سنگِ میل 23 مارچ 1940  کو  اپنایا تھا  اسے  کامیابی سے حاصل کیا گیا ۔  اور  اب  ہر  سال آزادی کی تاریخ میں سنہرے واقعے  کی  یاد  میں  23  مارچ  کو  تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔

پاکستان کے پہلے آئین کی منظوری دیتے ہوئےدستور ساز اسمبلی کا اجلاس
اگرچہ  مندرجہ بالا  باتیں تاریخی لحاظ سے درست قرار دی جاسکتیں ہیں  مگر  پھر بھی  23  مارچ  کے جشن  کی  وجہ  1940  کی  قراردادلاہور  کا   اس دن منظور  ہونا نہیں ہے ۔ اس دن کی اہمیت 1956 سے ہے  جب مملکت پاکستان نے اپنا پہلا آئین اپنایا  اور   پاکستان دنیا  کا  پہلا اسلامی جمہوریہ بن گیا۔  آئین کے نفاذ سے پاکستان ڈومینین کی حیثیت سے نکل آیا۔  انگریزوں نے پاکستان  اور  ہندوستان  کو  آزادی دیتے وقت ڈومینین کی حیثیت دی تھی جس کے تحت دونوں ممالک  کو   دولت مشترکہ کے اندر  رہتے ہوئے  اندرونی خودمختاری عطا  کی  گئی ۔  انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی شاہ/ ملکہ برطانیہ  کو  ان ممالک کے بادشاہ/ ملکہ  کا  اعزاز حاصل تھا۔  جب ہندوستان نے 26 جنوری 1950  کو  اپنا آئین بنایا  تو  وہ  ڈومینین کی حیثیت سے باہر آیا  اور  اب  ہر  سال ہندوستان  26  جنوری  کو  یوم جمہوریہ مناتا ہے۔   بدقسمتی سے پاکستان میں آئین سازی  کا  کام مختلف وجوہات کی وجہ سے تاخیر کا شکار  رہا ۔  بالآخر  آزادی کے  9  سال بعد پاکستان کے حکمرانوں نے ملک کے لیے ایک آئین بنایا ،  جس  کو  23  مارچ 1956  کو  لاگو  کیا  گیا ۔ جب پاکستان نے اپنا آئین  لاگو  کیا  تو   پاکستان بھی ڈومینینکی حیثیت سے نکل آیا  اور  مکمل طور سے ایک آزاد اور خود مختار  ریاست  بنا ۔
 اگلے  دو  سال پاکستان نے آئین کے نفاذ کی خوشی   کو  یوم جمہوریہ  کے طور پر منایا  ۔ 

  لیکن جمہوریت کی  یہ  خوشی پاکستانی عوام   کو   زیادہ  دیر  تک   راس  نہ  آئی  اور  صرف  2  سال یوم جمہوریہ کی تقریبات منانے کے بعد اس  جشن  کو 
   پھر کبھی نہیں منا یا جاسکا ۔ کیونکہ جب اکتوبر 1958 میں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا  اور  آئین  کو  ختم  کیا گیا  تو  فوجی حکمرانوں نے دشواری سے بچنے کے لیے 23 مارچ کی تقریبات کو آئین کے نطاذ کی بجائے 1940 کے قرارداد لاہور سے جوڑ دیا ، اور یہ غلط روایت آج تک جاری ہے ۔ غیر جمہوری حکمرانوں نے 23 مارچ کی تقریبات کو یومِ جمہوریہ کی جگہ یوم پاکستان کا نام دیا ۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے  کہ  1940  کی قرارداد میں کہیں بھی "پاکستان"  کا  لفظ شامل نہیں ہے  اور  اس قرارداد  کا   نام بھی قراداد لاہور    ہے۔ اس کے علاوہ اس قرارداد میں مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل آزاد ریاستوں کی مطالبہ کیا گیا تھا نہ کہ کسی ایک مسلم ریاست کا ۔ تو اب ایک ایسی قرارداد سے یوم پاکستان کو جوڑنا جس میں نہ تو پاکستان کا نام موجود ہے اور نہ ہی ایک وطن کا مطالبہ تھا (بلکہ قرارداد لاہور میں  کئی آزاد ریاستوں کی بات کی گئی تھی )  کہاں کی عقلمندی ہے ؟ تحریک پاکستان کے دوران اس دن کو منانے کا اہتمام بھی کیا گیا لیکن صرف 1941 میں قرارداد لاہور کی سالگرہ منانے کا ذکر تاریخ میں نمایاں ہے ۔ 1946 میں مسلم لیگ نے اپنے ایک اجلاس میں کئی ریاستوں کی جگہ ایک آزاد وطن کو اپنا مقصد بنایا ۔ 

پاکستان نے آئین کے نفاذ کے لیے  پھر  23  مارچ  کا انتخاب کیوں کیا ؟  اس  کی  کئی وجوہات ہو سکتیں ہیں۔  جس طرح ہندوستان نے آئین کے نفاذ کے لیے  26  جنوری  کا انتخاب کیا   کیوں  کہ  26  جنوری  1930  کو  کانگریس نے جدوجہد آزادی  کے  دوران  اپنی طرف سے آزادی  کا  اعلان  کردیا تھا ۔  چونکہ آزادی کےلیے 15 اگست  کی تاریخ  کا  انتخاب انگریزوں نے کیا تھا  اس  لیے  جب ہندوستان  اور  پاکستان نے اپنے  لیے آئین بنائے اور ڈومینین کی حیثیت سے چھٹکارہ پایا تو دونوں نے اس دن کے انتخاب کے لیے اپنی تحریک آزادی  کی تاریخ سے سنہرے اور یادگار دنوں کا چناؤ کیا ۔  

  ہندوستان نے  26  جنوری  کا  انتخاب کیا  اور پاکستان نے  23 مارچ   کا  ۔ لیکن اس  کا  یہ مطلب نہیں ہے  کہ  آج  ہندوستان کے لیے  26  جنوری  کی  اہمیت 1950 کی بجائے  1930 سے  ہے، اور  اس طرح آج  پاکستان کے لیے 23 مارچ  کی  اہمیت 1940  کے  قراداد لاہور  کی  وجہ سے نہیں ہے  بلکہ  1956  میں آئین کے نفاذ  اور  اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے سے ہے ۔  ہندوستان  ہر  سال  26  جنوری  کو   1950 میں آئین کے نفاذ  کی خوشی میں  یوم جمہوریہ مناتا ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان  کو  بھی  23  مارچ  کو  1956 میں آئین کے نفاذ  کی خوشی میں یوم جمہوریہ کے طور  پر  منانا چاہئے ۔
23  مارچ  کی صحیح اہمیت  کو  عوام  اور  خصوصاً  نئی  نسل تک پہنچانا بہت ضروری ہے  تاکہ  ان  کو  نہ  صرف مستند تاریخ پڑھنے  کو  ملے  بلکہ ان  کو  آئین ، قانون  اور  جمہوریت  کی پاکستان کی بقا کے لیے اہمیت  کا  اندازہ ہو جائے۔ ہمیں تاریخی سچائیوں  کو سمجھنے  اور قبول کرنے کے لیے تبدیل ہونا پڑے گا   اور  ہر  قسم  کی  تنقیدی سوچ کے لیے ذہن  کو  کھولنا ہوگا۔
نوٹ : قارئین  کو  اس بلاگ میں  تصحیح ،  اعتراض  اور  اختلاف رائے  کی  مکمل آزادی ہے۔

Saturday, 7 March 2015

قومی ترانے میں موجود ابہام : Ambiguity in the National Anthem of Pakistan (Urdu)

دنیا کے ہر ملک کا ایک اپنا قومی ترانہ ہوتا ہے۔  قومی ترانہ سرکاری زبان  یا  منظور شدہ زبان میں 
 ہوتاہے۔  قومی ترانہ ملک کے تہذیب و فکر کی عکاسی کرتا ہے۔ 


پاکستان کے آزاد ہونے بعد بانیانِ پاکستان کے لیے قومی ترانے کا انتخاب بھی اہم امور میں شامل تھا۔ قومی ترانے کے انتخاب کے لیے  23 فروری 1949 کو حکومتِ پاکستان نے شیخ محمد اکرام کی سرکردگی میں ایک کیمیٹی قائم کی۔ اس کمیٹی کو نامور شعراء نے اپنے ترانے انتخاب کے لیے پیش کئے۔ سات سو سے زائد ترانوں میں سے جناب حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا ترانہ منظور ہوکر پاکستان کا قومی ترانہ قرار پایا ۔






 (1982 -- 1900 ) ابوالاثر حفیظ جالندھری 
اس ترانے کے لیے موسیقی مشہور موسیقار جناب احمد غلام علی  چھاگلہ نے 1949ہی میں ترتیب دی تھی۔ قومی ترانے کا دورانیہ ایک منٹ اور بیس سیکنڈ (80 سیکنڈ) ہے۔ یہ ترانہ پہلی مرتبہ 13 اگست 1954ء کو    ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ آسان فارسی زبان میں تحریر کیا گیا  یہ   ترانہ پندرہ مصرعوں پر مشتمل تین بندوں میں ہے۔ پورے ترانے میں صرف ایک لفظ  "کا" اردو  زبان کا ہے  (پاک سرزمین کا نظام)۔ بعض محقیقین کا خیال ہے کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ میانوالی سے تعلق رکھنے والے ہندو شاعر جناب جگن ناتھ آزاد نے قائداعظم کی فرمائش  پر  آزادی کے دنوں میں لکھا  اور  جو  ریڈیو پاکستان کراچی سے سنایا جاتا رہا۔  مگر مدلل حقائق کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس خیال  کو  زیادہ  پذیرائی  حاصل نہ ہوسکی۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہاں یہ  وضاحت ضروری ہے  کہ  آزادی کے وقت ہندوستان  اور  پاکستان  کو  ڈومینین  کی حیثیت دی گئی تھی۔  ڈومینین سے مراد  برطانوی بادشاہت کے زیرِ اثر  داخلی خودمختاری تھا۔  قانون آزاد دیِ ہند کے تحت قرار پایا تھا  کہ  دونوں  نو آزاد ممالک جب تک اپنے لیے آئین نہ بنائیں  تب تک انگریزوں کےبنائے ہوئے 1935ء کے ایکٹ کے تحت اپنے امور چلائیں گے۔  ہندوستان نے 26 جنوری 1950 کو  آئین بنایا ،  جبکہ پاکستان نے آئین سازی کے عمل پر تقریباً 9 سال گزار دئے  اور  23 مارچ 1956  کو  اپنا پہلا آئین بنایا۔ اس آئین سے ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا  اور اس طرح انگریز وں کے بنائے ہوئے آئین  اور  بادشاہت کا مکمل خاتمہ ہوا۔

پاکستان کا قومی ترانہ

پاکستان کے قومی ترانے کے دوسرے بند کے دوسرے مصرعے میں ایک تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ ہے  جو  انتہائی توجہ طلب ہے ۔ اس مصرعے ("قوم ، ملک ، سلطنت ۔ ۔ ۔  پائندہ تابندہ باد" ) میں سلطنت کا لفظ 
 شائد سلطنت برطانیہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔  قومی ترانے کے انتخاب کے وقت چونکہ پاکستان سلطنت برطانیہ کے اندر رہتے ہوئے  داخلی طور  پر  خودمختار ملک تھا  (جیسا کہ آج کل آسٹریلیا یا کینڈا کے ممالک ہیں ) ، لہٰذا   برطانوی بادشاہت سے وفاداری ایک لازمی  اور سمجھ میں آنے والی بات تھی۔  لیکن جب ہم نے آئین اپنایا  اور  تاجِ برطانیہ  اور  انگریزوں کے آئین دونوں سے چھٹکارا پایا  تو  اب ترانے میں "سلطنت "  کا  لفظ  کیوں موجود ہے  اور  یہ  کس طرف اشارہ کرتا ہے؟   پاکستان  تو   خود  ایک  جمہوریہ  ہے  جہاں سلطنت بنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر  درستگی کی خاطر لفظ سلطنت کی جگہ "ریاست " لگایا جائے  تو  بہتر ہوگا ("قوم ، ملک ، ریاست –  پائندہ تابندہ باد")۔ اس مختصر  ترمیم سے ترانے میں موجود  دانستہ  یا  غیر دانستہ  ابہام ختم ہوجائے گا۔ کیونکہ جو  قومیں  وقت کے ساتھ تبدیلی اختیار کرتیں ہیں  وہی ترقی  کی  راہ  پر  گامزن ہوتی ہیں ۔


نوٹ : قارئین کو اس بلاگ میں  تصحیح ،  اعتراض  اور  اختلاف رائے  کی  مکمل آزادی ہے۔