پاکستان
میں سالہا سال سے 23 مارچ کے دن کو یوم پاکستان کی مناسبت
سے منایا جاتا ہے ۔ یوم پاکستان کا آغاز
وفاقی دارلحکومت میں 31 اور چاروں
صوبائی دارالحکومتوں میں 21 توپوں کی سلامی سے ہوتا ہے۔ سرکاری
عمارات پر پاکستان کا جھنڈا لہرایا جاتا ہے۔ صبح کے
وقت اسلام آباد میں فوجی اور سوِل پریڈ ہوتا ہے (ملک میں خراب
حالات کی وجہ سے گزشتہ چند سال یہ تقریب شان و شوکت سے منعقد نہ
ہوسکی۔ البتہ 2015 اور 2016 میں اس تقریب کو
ماضی کی طرح بھر پور طریقے سے منایا گیا )۔ اس دن
صدرِ پاکستان مختلف امور میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ
کرنے والے افراد میں قومی تمغے تقسیم کرتے ہیں۔ قائد اعظم اور علامہ
اقبال کے مزارات پر گارڈ کی تبدیلی کی تقریبات
ہوتیں ہیں اور مزارات پر پھولوں کے گلدستے پیش کئے
جاتے ہیں۔ اس دن پورے ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے ۔ مختلف سرکاری
اور غیر سرکاری ادارے قریبات کا اہتمام کرتے ہیں
اور اخبارات ، ریڈیو اور ٹی وی سے اس دن
کی مناسبت سے قومی
جذبے سے بھر پور پروگرام پیش ہوتے ہیں۔
14 اگست کو جشن آزادی کے بعد پاکستان کے لیے اس دن یعنی یوم پاکستان کی اہمیت زیادہ ہے ۔ یوم پاکستان کی تقریبات آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان ، قبائلی علاقہ جات کے علاوہ بیرون ملک موجود پاکستانی جوش و جذبے سے مناتے ہیں ۔
23 مارچ کی تاریخی اہمیت بحثیت یوم پاکستان کے کیا ہے؟ کیا آپ وہی سوچ رہے ہیں جو آپ کو میڈیا اور نام نہاد سیاستدان بتاتے چلے آئے ہیں۔ یہی کہ 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی جس میں ہندوستان کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قائداعظم محمد علی جناح کے زیرسرکردگی اپنے لیے ایک جدا وطن کا حصول اپنا مقصد بنایا۔ اور پھر سات سال کی جدوجہد کے بعد اگست 1947 کو آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اور یوں جو سنگِ میل 23 مارچ 1940 کو اپنایا تھا اسے کامیابی سے حاصل کیا گیا ۔ اور اب ہر سال آزادی کی تاریخ میں سنہرے واقعے کی یاد میں 23 مارچ کو تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔
جذبے سے بھر پور پروگرام پیش ہوتے ہیں۔
14 اگست کو جشن آزادی کے بعد پاکستان کے لیے اس دن یعنی یوم پاکستان کی اہمیت زیادہ ہے ۔ یوم پاکستان کی تقریبات آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان ، قبائلی علاقہ جات کے علاوہ بیرون ملک موجود پاکستانی جوش و جذبے سے مناتے ہیں ۔
23 مارچ کی تاریخی اہمیت بحثیت یوم پاکستان کے کیا ہے؟ کیا آپ وہی سوچ رہے ہیں جو آپ کو میڈیا اور نام نہاد سیاستدان بتاتے چلے آئے ہیں۔ یہی کہ 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی جس میں ہندوستان کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قائداعظم محمد علی جناح کے زیرسرکردگی اپنے لیے ایک جدا وطن کا حصول اپنا مقصد بنایا۔ اور پھر سات سال کی جدوجہد کے بعد اگست 1947 کو آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اور یوں جو سنگِ میل 23 مارچ 1940 کو اپنایا تھا اسے کامیابی سے حاصل کیا گیا ۔ اور اب ہر سال آزادی کی تاریخ میں سنہرے واقعے کی یاد میں 23 مارچ کو تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔
پاکستان کے پہلے آئین کی منظوری دیتے ہوئےدستور ساز اسمبلی کا اجلاس |
اگرچہ
مندرجہ بالا باتیں تاریخی لحاظ سے درست قرار دی جاسکتیں ہیں مگر پھر
بھی 23 مارچ کے
جشن کی وجہ 1940 کی
قراردادلاہور کا اس
دن منظور ہونا نہیں ہے ۔ اس دن کی اہمیت
1956 سے ہے جب مملکت پاکستان نے اپنا پہلا
آئین اپنایا اور پاکستان
دنیا کا پہلا اسلامی جمہوریہ بن گیا۔ آئین کے نفاذ سے پاکستان ڈومینین کی حیثیت سے
نکل آیا۔ انگریزوں نے پاکستان اور ہندوستان
کو آزادی دیتے وقت ڈومینین کی حیثیت دی تھی جس کے
تحت دونوں ممالک کو دولت مشترکہ کے اندر رہتے ہوئے اندرونی خودمختاری عطا کی گئی
۔ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی شاہ/ ملکہ
برطانیہ کو ان ممالک کے بادشاہ/ ملکہ کا اعزاز
حاصل تھا۔ جب ہندوستان نے 26 جنوری 1950 کو اپنا
آئین بنایا تو وہ ڈومینین کی حیثیت سے باہر آیا اور اب ہر سال
ہندوستان 26 جنوری کو
یوم جمہوریہ مناتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں آئین سازی کا کام
مختلف وجوہات کی وجہ سے تاخیر کا شکار رہا
۔ بالآخر آزادی کے 9 سال
بعد پاکستان کے حکمرانوں نے ملک کے لیے ایک آئین بنایا ، جس کو 23 مارچ
1956 کو لاگو کیا گیا
۔ جب پاکستان نے اپنا آئین لاگو کیا تو پاکستان
بھی ڈومینینکی حیثیت سے نکل آیا اور مکمل طور سے ایک آزاد اور خود مختار ریاست بنا ۔
اگلے دو سال پاکستان نے آئین کے نفاذ کی خوشی کو یوم جمہوریہ کے طور پر منایا ۔
لیکن جمہوریت کی یہ خوشی پاکستانی عوام کو زیادہ دیر تک راس نہ آئی اور صرف 2 سال یوم جمہوریہ کی تقریبات منانے کے بعد اس جشن کو
پھر کبھی نہیں منا یا جاسکا ۔ کیونکہ جب اکتوبر 1958 میں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا اور آئین کو ختم کیا گیا تو فوجی حکمرانوں نے دشواری سے بچنے کے لیے 23 مارچ کی تقریبات کو آئین کے نطاذ کی بجائے 1940 کے قرارداد لاہور سے جوڑ دیا ، اور یہ غلط روایت آج تک جاری ہے ۔ غیر جمہوری حکمرانوں نے 23 مارچ کی تقریبات کو یومِ جمہوریہ کی جگہ یوم پاکستان کا نام دیا ۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ 1940 کی قرارداد میں کہیں بھی "پاکستان" کا لفظ شامل نہیں ہے اور اس قرارداد کا نام بھی قراداد لاہور ہے۔ اس کے علاوہ اس قرارداد میں مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل آزاد ریاستوں کی مطالبہ کیا گیا تھا نہ کہ کسی ایک مسلم ریاست کا ۔ تو اب ایک ایسی قرارداد سے یوم پاکستان کو جوڑنا جس میں نہ تو پاکستان کا نام موجود ہے اور نہ ہی ایک وطن کا مطالبہ تھا (بلکہ قرارداد لاہور میں کئی آزاد ریاستوں کی بات کی گئی تھی ) کہاں کی عقلمندی ہے ؟ تحریک پاکستان کے دوران اس دن کو منانے کا اہتمام بھی کیا گیا لیکن صرف 1941 میں قرارداد لاہور کی سالگرہ منانے کا ذکر تاریخ میں نمایاں ہے ۔ 1946 میں مسلم لیگ نے اپنے ایک اجلاس میں کئی ریاستوں کی جگہ ایک آزاد وطن کو اپنا مقصد بنایا ۔
پاکستان نے آئین کے نفاذ کے لیے پھر 23 مارچ کا انتخاب کیوں کیا ؟ اس کی کئی وجوہات ہو سکتیں ہیں۔ جس طرح ہندوستان نے آئین کے نفاذ کے لیے 26 جنوری کا انتخاب کیا کیوں کہ 26 جنوری 1930 کو کانگریس نے جدوجہد آزادی کے دوران اپنی طرف سے آزادی کا اعلان کردیا تھا ۔ چونکہ آزادی کےلیے 15 اگست کی تاریخ کا انتخاب انگریزوں نے کیا تھا اس لیے جب ہندوستان اور پاکستان نے اپنے لیے آئین بنائے اور ڈومینین کی حیثیت سے چھٹکارہ پایا تو دونوں نے اس دن کے انتخاب کے لیے اپنی تحریک آزادی کی تاریخ سے سنہرے اور یادگار دنوں کا چناؤ کیا ۔
ہندوستان نے 26 جنوری کا انتخاب کیا اور پاکستان نے 23 مارچ کا ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آج ہندوستان کے لیے 26 جنوری کی اہمیت 1950 کی بجائے 1930 سے ہے، اور اس طرح آج پاکستان کے لیے 23 مارچ کی اہمیت 1940 کے قراداد لاہور کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ 1956 میں آئین کے نفاذ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے سے ہے ۔ ہندوستان ہر سال 26 جنوری کو 1950 میں آئین کے نفاذ کی خوشی میں یوم جمہوریہ مناتا ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان کو بھی 23 مارچ کو 1956 میں آئین کے نفاذ کی خوشی میں یوم جمہوریہ کے طور پر منانا چاہئے ۔
اگلے دو سال پاکستان نے آئین کے نفاذ کی خوشی کو یوم جمہوریہ کے طور پر منایا ۔
لیکن جمہوریت کی یہ خوشی پاکستانی عوام کو زیادہ دیر تک راس نہ آئی اور صرف 2 سال یوم جمہوریہ کی تقریبات منانے کے بعد اس جشن کو
پھر کبھی نہیں منا یا جاسکا ۔ کیونکہ جب اکتوبر 1958 میں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا اور آئین کو ختم کیا گیا تو فوجی حکمرانوں نے دشواری سے بچنے کے لیے 23 مارچ کی تقریبات کو آئین کے نطاذ کی بجائے 1940 کے قرارداد لاہور سے جوڑ دیا ، اور یہ غلط روایت آج تک جاری ہے ۔ غیر جمہوری حکمرانوں نے 23 مارچ کی تقریبات کو یومِ جمہوریہ کی جگہ یوم پاکستان کا نام دیا ۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ 1940 کی قرارداد میں کہیں بھی "پاکستان" کا لفظ شامل نہیں ہے اور اس قرارداد کا نام بھی قراداد لاہور ہے۔ اس کے علاوہ اس قرارداد میں مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل آزاد ریاستوں کی مطالبہ کیا گیا تھا نہ کہ کسی ایک مسلم ریاست کا ۔ تو اب ایک ایسی قرارداد سے یوم پاکستان کو جوڑنا جس میں نہ تو پاکستان کا نام موجود ہے اور نہ ہی ایک وطن کا مطالبہ تھا (بلکہ قرارداد لاہور میں کئی آزاد ریاستوں کی بات کی گئی تھی ) کہاں کی عقلمندی ہے ؟ تحریک پاکستان کے دوران اس دن کو منانے کا اہتمام بھی کیا گیا لیکن صرف 1941 میں قرارداد لاہور کی سالگرہ منانے کا ذکر تاریخ میں نمایاں ہے ۔ 1946 میں مسلم لیگ نے اپنے ایک اجلاس میں کئی ریاستوں کی جگہ ایک آزاد وطن کو اپنا مقصد بنایا ۔
پاکستان نے آئین کے نفاذ کے لیے پھر 23 مارچ کا انتخاب کیوں کیا ؟ اس کی کئی وجوہات ہو سکتیں ہیں۔ جس طرح ہندوستان نے آئین کے نفاذ کے لیے 26 جنوری کا انتخاب کیا کیوں کہ 26 جنوری 1930 کو کانگریس نے جدوجہد آزادی کے دوران اپنی طرف سے آزادی کا اعلان کردیا تھا ۔ چونکہ آزادی کےلیے 15 اگست کی تاریخ کا انتخاب انگریزوں نے کیا تھا اس لیے جب ہندوستان اور پاکستان نے اپنے لیے آئین بنائے اور ڈومینین کی حیثیت سے چھٹکارہ پایا تو دونوں نے اس دن کے انتخاب کے لیے اپنی تحریک آزادی کی تاریخ سے سنہرے اور یادگار دنوں کا چناؤ کیا ۔
ہندوستان نے 26 جنوری کا انتخاب کیا اور پاکستان نے 23 مارچ کا ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آج ہندوستان کے لیے 26 جنوری کی اہمیت 1950 کی بجائے 1930 سے ہے، اور اس طرح آج پاکستان کے لیے 23 مارچ کی اہمیت 1940 کے قراداد لاہور کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ 1956 میں آئین کے نفاذ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے سے ہے ۔ ہندوستان ہر سال 26 جنوری کو 1950 میں آئین کے نفاذ کی خوشی میں یوم جمہوریہ مناتا ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان کو بھی 23 مارچ کو 1956 میں آئین کے نفاذ کی خوشی میں یوم جمہوریہ کے طور پر منانا چاہئے ۔
23 مارچ کی
صحیح اہمیت کو عوام اور
خصوصاً نئی نسل
تک پہنچانا بہت ضروری ہے تاکہ ان کو نہ صرف
مستند تاریخ پڑھنے کو ملے بلکہ ان کو آئین
، قانون اور جمہوریت
کی پاکستان کی بقا کے لیے اہمیت کا
اندازہ ہو جائے۔ ہمیں تاریخی سچائیوں کو سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے تبدیل ہونا پڑے گا اور ہر قسم کی تنقیدی سوچ کے لیے ذہن کو کھولنا ہوگا۔
نوٹ : قارئین کو اس
بلاگ میں تصحیح ، اعتراض اور اختلاف
رائے کی مکمل آزادی ہے۔