Sunday, 18 December 2016

کوئٹہ سانحہ کمیش رپورٹ 2016 Quetta Inquiry Commission Report Urdu



  کوئٹہ سانحہ انکوائری رپورٹ  2016      
از جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

تعارف
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 8 اگست 2016 کو بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر کی ہلاکت اور پھر اسی روز ہسپتال میں وکلا کے مجمع پر خود کش حملے کی تحقیقات کے لیے 6 اکتوبر 2016 کو ایک رکنی کمیشن بنانے کا حکم جاری کیا ۔ سپریم کورٹ کے جج (اور بلوچستان ہائی کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس )  جناب قاضی فائز عیسیٰ کو دہشت گردی کے ان واقعات کی جامع رپورٹ مرتب کرنے کے لیے 17 اکتوبر سے 17 نومبر تک کا وقت دیا گیا ۔  کمیشن کے قیام کو حکومت بلوچستان نے ابتدائی طور پر چیلنج بھی کیا ۔ کمیشن نے باقاعدہ کام شروع کرنے سے پہلے اخبارات میں کمیشن کے قیام اور اس کے سامنے بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے  اشتہارات شائع کئے  ۔  کمیشن کی قانونی مدت میں ایک دفعہ تین ہفتے اور دوسری مرتبہ ایک ہفتے مہلت دیتے ہوئے تاریخ کو 14 دسمبر تک بڑھایا گیا ۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ 54 دن کی مدت کے بعد 13 دسمبر 2016 کو پیش کی ۔ یہ رپورٹ 110 صفحات پر مشتمل ہے اور کمیشن کے قیام کے حکم سے لے کر انکوائری کے اختتام پر تجاویز تک تمام باتیں انتہائی تفصیل سے بیان کی گیئں ہیں ۔                                                                                                       

                                              



رپورٹ کے آخری 23 صفحات نقشہ جات اور تصاویر کے لیے مختص ہیں ۔ کمیشن نے مختلف شخصیات اور اداروں کو کُل 59 خطوط ارسال کئے اور کویٹہ میں 40 جب کہ اسلام آباد میں 5 افراد کمیشن کے سامنے پیش ہوئے ۔ کمیشن نے اپنی زیادہ تر کاروارئی غیر خفیہ طریقے سے کی اور مطعلقہ لوگ کمیشن کی کاروائی میں شریک ہوتے رہے ۔ البتہ کچھ اجلاس خفیہ ( اِن کیمرہ ) بھی ہوئے ۔                                          
عزت مآب جناب جسٹس فائز عیسیٰ

کمیشن کی کارکردگی
کمیشن کے سامنے 8 اگست 2016 کو رونما ہونے والے دو دہشت گرد حملوں کی انکوائری تھی۔ پہلے واقعہ جب بلوچستان بار ایسو سی ایشن کے صدر جناب بلال احمد کاسی کو ان کے گھر سے کچھ فاصلے پر موٹر سائیکل سوار قاتلوں نے فائرنگ سے ہلاک کیا ۔ دوسرے واقعے میں حادثے کی اطلاع ملتے ہی کئی وکلا نے ہسپتال کا رخ کیا جہاں وکلاء کے مجمع پر خود کش حملہ ہوا جس 75 قیمتی جانیں (زیادہ تر وکلاء) ضائع ہوئیں اور 105 لوگ زخمی ہوئے ۔ ان حملوں کی ذمہ داری جمیعت الاحرار نے قبول کی ۔                                                                                    
کمیشن کی کوششوں سے خود کش حملہ آور اس کے ساتھیوں  کی شناخت ممکن ہوسکی ۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے 29 سالہ خود کش حملہ آور کا نام احمد علی تھا  ۔ کمیشن ہی کی کوششوں سے ہی  خود کش بمبار کا کوئٹہ شہر سے باہر دھماکہ خیز مواد بنانے کا مقام معلوم ہوسکا ۔ مزید تحقیق سے معلوم ہوا کے دہشت گر ضلع پشین میں واقع ایک بڑے گھر میں روپوش رہے تھے۔ 5 دسمبر 2016 کو پولیس نے وہاں چھاپہ مارا جس کے نتیجے میں چار دہشت گرد ہلاک اور ایک گرفتار ہوا ، جب کہ واقعے میں دو پولیس والے زخمی بھی ہوئے ۔ پولیس کے مطابق گروہ کا سربراہ جہانگیر بدینی خضدار انجنئرنگ یونیورسٹی کا ڈگری ہولڈر تھا ۔ خود کش حملہ آور ، ہلاک شدہ و گرفتار شدہ تمام دہشت گردوں کا تعلق بلوچستان سے تھا ۔                                                                        
خودکش حملہ آور

منصوبہ ساز


پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات
جنوری 2001 سے اکتوبر 2016 تک کُل 17503 دہشت گرد حملے ہوئے (یعنی فی دن 3 حملے ) ۔ 2900 کے قریب حملے بلوچستان میں ہوئے ۔ (اس کے بعد بھی بلوچستان میں کئی دہشت گرد حملے ہوچکے ہیں ، مثلاً پولیس ٹرینگ کالچ ، درگاہ  شاہ نورانی پر حملہ ) ۔

کالعدم تنظیمیں
 حکومت پاکستان نے نومبر 2016 تک 63 مختلف جماعتوں کو کالعدم قرار دیا ہے ۔ 16 اگست 2016 کو بلوچستان حکومت نے وزارت داخلہ سے درخواست کیا کہ صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث جمیت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا جائے  (لیکن چودھری نثار نے ان درخواستوں کو قابل عمل نہیں سمجھا ) ۔ کمیشن کے پوچھنے پر نیکٹا (وزارت داخلہ ) نے بتایا کہ انہوں نے اس سلسلے میں آئی ایس آئی کو خط لکھا ہے لیکن اب تک جواب کا انتظار ہے (اگرچہ آئی ایس آئی کے خط کا جواب دینے یا نا دینے کا کالعدم قرار دینے سے کوئی تعلق نہیں ہے )  ۔ کمیشن نے اس سلسلے میں سیکریٹری  وزارت داخلہ سے چند سوالات کئے جن کے جوابات انتہائی مضحکہ خیز آئے ۔ اسی طرح لاہور میں دو  چرچوں پر حملے (مارچ 2015) اور پشاور چرچ حملہ (ستمبر 2013) کی ذمہ داری قبول کرنے والی جماعتوں کو بھی کالعدم قرار نہیں دیا گیا ، جبکہ اخباری رپورٹس پر برطانوی حکومت نے اس جماعت کو کالعدم قرار دیا ۔                                                                       
اسی طرح حکومت کے کسی بھی ادارے نے اب تک کالعدم تنظیموں کے نام عوام کو ظاہر نہیں کئے تاکہ وہ جان سکیں کہ کونسی تنظیمیں کالعدم ہیں تاکہ ان کی رکنیت ، طرفداری اور مالی اعانت سے اجتناب کرسکیں ۔
مولانا یوسف لدھیانوی جو بیک وقت تین کالعدم تنظیموں کے سربراہ ہیں نے 21 اکتوبر 2016 کو چودھری نثار سے ملاقات نہ صرف ملاقت کی بلکہ اسلام آباد ہی میں جلسہ بھی کردیا ۔                   
وزیر داخلہ بغیر اجازت کے آنے والے مہمان کے ساتھ
(چودھری نثار نے اخباری کانفرنس میں بتایا کہ انہیں دفاع پاکستان کونسل کے وفد میں مولانا لدھیانوی کی شرکت کا علم نہیں تھا ، جس کے جواب میں جماعت اسلامی نے بتایا کہ ملاقت چودھری نثار کی خواہش پر ہوئی تھی ۔ واضح رہے کہ کالعدم تنظیموں کے ارکان پولیس کی اطلاع کے بغیر اپنا شہر نہیں چھوڑ سکتے اور نہ اجتماعات میں شرکت کرسکتے ہین  جبکہ مولانا لدھیانوی نے چودھری نثار سے ملاقت کر ڈالی اور جلسہ بھی کرڈالا ۔

 یہ جلسہ 28 اکتوبر 2016 کو اسلام آباد میں  "بغیر اجازت" کے وفاقی تحقیاتی ادارہ – ایف آئی اے – کے دفتر کے قریب ہاکی گراؤنڈ منعقد ہوا ) ۔          


بلوچستان ہائی کورٹ نے 2013 میں حکومت پاکستان کو دہشت گردی کے تھوڑ کے لیے کئی تجاویز دی تھیں ، جن میں کسی ایک پر بھی حکومت نے عمل درآمد نہیں کرایا ۔              ۔                                                           

انٹی ٹیریریزم ایکٹ (اے ٹی اے ) اور نیکٹا
اینٹی ٹیریزم ایکٹ (اے- ٹی – اے ) 1997 میں منظور ہوا ، جس کے تحت دہشت گردی کی سزائیں اور دہشت گردی  میں ملوث تنظیموں کو کالعدم قراردیا جاسکتا ہے ۔
نشنل کاؤنٹر ٹیریرزم اتھارٹی (این - آے – سی – ٹی - آے) پاکستان کا قیام 2013 میں  دہشت گردی کو قابو کرنے کے لیے لایا گیا ۔ وزیر داخلہ اس کے سربراہ ہونگے اور  قانون کے مطابق انتظامی کمیٹی کی میٹنگ ہر تین مہینوں میں ضروری ہے ۔ لیکن یہ ادارہ اپنے قیام سے لیکر آج تک صرف ایک بار اجلاس منعقد کراسکا ہے اور اپنے اغراض و مقاصد کے حصول میں مکمل طور سے نا کام رہا ہے  ۔ دسمبر 2016 میں آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد 20 نکاتی نشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا ۔  حکومت پاکستان نے اس پلان پر عمل درآمد کے لیے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر مقرر کیا ۔ لیکن پلان پر عمل در آمد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کمیشن کو نیکٹا اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کی جانب سے فراہم کردہ حقائق اور اعداد و شمار میں اختلافات موجود ہیں ۔      

میڈیا
رپورٹ کے مطابق میڈیا نے آزادی کے نام پر قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی شروع کی ہوئی ہے ۔ دہشت گردوں کے بیانات بڑھا چڑھا کر نشر کرنا ، ان کو اہمیت دینا  ،  ان کے لیے ہمدردری پیدا کرنا ، کالعدم تنظیموں کی خبریں نشر کرنا ، ان کے کاموں کی تشہیر کرانا وغیرہ غیر قانونی ہے ۔          

دین اور دہشت گردی
کمیشن نے قرآن پاک کی مختلف آیات مقدسہ اور احادیث مبارکہ کا حوالا دیتے ہوئے بتایا ہے کہ دین اسلام میں کسی بھی مذہب پر عمل پیرا انسان کا  ناحق خون بہانا اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔   

وفاق المدارس (مدارس کے تعلیمی بورڈز)
پاکستان میں پانچ تعلیمی بورڈز (وفاق المدارس) کام کررہیں ہیں ۔ کمیشن نے ان سے ایک خط کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف معلومات حاصل کیں ۔ جواب میں انہوں نے بتایا کہ تمام بورڈز کے پاس کُل 26465 دینی مدارس رجسٹرڈ ہیں اور ان تمام بورڈز نے دہشت گردی کے خلاف اپنا عزم ظاہر کیا ۔ وفاقی وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نے اس سلسلے میں خط کا جواب دیتے ہوئے (اپنے ماتحت اداروں کے بارے میں ) کوئی بھی معلوماتی بات تحریر نہیں کی ( ان کے خط کی انگریزی میں بھی غلطی ہے ) ۔ اس کے علاوہ وفاقی محکمہ صرف حج اور عمرہ کے انتظامات میں مصروف دکھائی دیتا ہے جبکہ مدارس کی رجسٹریشن اور بین المذاہب ہم آہنگی کے بارے میں ان کا کام ادھورا ہے ۔                                                                                                     
قانون نافذ کرنے والے ادارے
دہشت گردی کے واقعے سے بہتر طور سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین  نہ تو کوئی ہم آنگی ہے اور نہ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی طریقہ کار وضع کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ سانحے کے دن ہوائی فائرنگ کی گئی جس کا فائدہ تو نہ ہوسکا البتہ امدادی کارکن خوف کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے ۔ اس کے علاوہ خوشی کے مواقع پر ہوائی فائرنگ اگرچہ خلاف قانون ہے لیکن قانون ایسے موقعوں پر حرکت میں نہیں آتا ۔                                                         

سرکاری ہسپتال کی حالت زار
سینڈیمن ہسپتال جہاں دہشت گردی کا واقع رونما ہوا ،  کوئٹہ کا بڑا سرکاری ہسپتال ہے ۔ کمیشن نے ہسپتال میں تعینات عملہ کی غفلت ، غیر حاضری اور خراب کارکرگی کو سامنے پیش کیا ہے ۔ کمیشن نے موبائل فون ڈیٹا کی بنیاد پر بتایا کہ سانحے کے روز ڈیوٹی سے 81 ڈاکٹر ، 18 نرسیں ، 15 پیرامیڈیکس سے غائب تھے جبکہ 52 دوسرے ڈاکٹروں کی موجودگی بھی مشکوک رہی ۔ عملہ کی حاضری کا کوئی انتظام نہیں تھا اور کچھ عرصہ پہلے اسی ہسپتال کے ڈاکٹر بائیومیٹرک نظام کو تھوڑ چکے تھے ۔ اس تھوڑ پھوڑ پر سیکریٹری محمکہ صحت نے کوئی کاروائی نہیں کی باوجود کہ یہ واقع کیمرے نے ریکارڈ کرایہ تھا ۔                                                                          
ہسپتال کے عملے میں 19 چوکیدار اور 75 گارڈز بھی شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ کمپنی کے 24 گارڈز اور 2 سپروائزرز کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں / تھیں ۔ سیکیورٹی کیمروں کی تعداد اور استعداد بھی ناکافی ہے / تھی ۔  ان کی غفلت اور غیر مؤثر کارکردگی واضح ہے ۔ ہسپتال میں تیمارداروں کی اوقات کار کے لیے کوئی طریقہ کار نہیں تھا ۔ سانحے کے بعد وی آئی پیز اور میڈیا کی موجودگی نے امدادی کاراوائیوں پر منفی اثر ڈالا ۔ ( مشہر زمانہ ) آرمی چیف نے سی ایم ایچ کا دورہ کیا ، نتیجتاً راستے اور موبائل فون بند ہوئے یوں امدادی کاراوائیوں میں خلل پڑا ۔                 
مریضوں کے لیے سٹریچر ، امدادی دوائیاں، آگ بجھانے کے آلات اور ایمبولینس ، مناسب کار پارک  وغیرہ سب کی کمی اور خراب کارکردگی نوٹ کی گئی ۔ ہسپتال کی صفائی ناگفتہ بہ تھی ۔ ہسپتال کے ایم ایس کا تعلیمی اور پیشہ ورانہ کارکردگی نہایت بری تھی ۔                                          

دہشت گردی کے معاشی نقصانات
2002 سے لے کر اب تک 11 ارب 83 کروڑ ڈالر کے نقصانات ملک کو برداشت کرنے پڑے ہیں ۔

حکومت بلوچستان کی نااہلی
صوبائی وزیر داخلہ نے بیان دیا کہ پاکستان دشمن دو پڑوسی ممالک اس حملے میں ملوث ہیں ۔ (اگرچہ آرمی چیف نے اس حملے کو سی پیک کے خلاف حملہ قرار دیا ، جس کا رپورٹ میں ذکر نہیں ہے ) ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے نومبر 2016 میں بیان دیا کہ سانحہ کوئٹہ کے منصوبہ ساز کو گرفتار کر لیا گیا ہے ، جب کہ ڈی آئی جی نے کمیشن کے سامنے اس خبر سے لاعلمی ظاہر کی ۔ اگلے روز ترجمان وزیراعلیٰ نے وضاحت کی کہ منصوبہ ساز نہیں بلکہ سہولت کار گرفتار کیا گیا ہے ۔ ڈی آئ جی نے کمیشن کے سامنے خبر کی تردید کی ۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ جب 5 دسمبر کو واقعی طور سے دہشت گرد ہلاک ہوئے تو میڈیا نے اس خبر کو توجہ نہیں دی ۔ روزنامہ جنگ (کوئٹہ ) نے دہشت گردوں کا بیان چھاپتے ہوئے لکھا کہ ان کے ساتھی مقابلے میں نہیں بلکہ پولیس حراست میں ہلاک کئے گئے ہیں ۔                                                                                          
سانحے کے وقت سیکریٹری صحت ایک غیر متعقلہ اور سفارشی افسر تھا ۔ موصوف میں ایک ہی خاصیت تھی کہ وہ  ریٹائرڈ لیفٹنٹ جنرل و  وفاقی وزیر ( غالباً عبدالقادر بلوچ ، منسٹر سیفران کی طرف اشارہ ہے ) کے بھائی ہیں ۔ اس کے علاوہ تین دیگر صوبائی سیکریٹریز بھی غیرقانونی طور سے تعینات تھے ۔
چیف سیکریٹری بلوچستان نے الزام لگایا کہ وزیر اعلیٰ اور متعلقہ وزراء ان کے کام میں بھرپور دخل انداز کرتے ہیں ۔

قابل ذکر کردار
ایک لیڈی ڈاکٹر نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے زخمیوں کی مدد کی ۔ دوسری لیڈی ڈاکٹر نے سانحے میں شدید زخمی ہونے کے باوجود ڈیوٹی پر آنا شروع کردیا ہے ۔ پنجاب فورینزک سائنس لیبارٹری کے ڈی جی و دیگر اراکین نے کمیشن کی بڑی حد تک مدد کی ۔                  ۔                                                      
بین الاقوامی سرحدات
افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدات پر کوئی حفاظتی اور نگرانی کے انتظامات نہیں ہیں اور دہشت گردوں کا سرحد پار کر فرار ہونا کوئی مشکل بات نہیں ۔

 حکومت کے ساتھ خط و کتابت
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے جتنی خط و کتابت کی ہے وہ صاف کاغذ پر تھی نہ کہ لیٹر ہیڈ پر ۔  بغیر شناخت ، فون نمبر، پتہ ، ای میل وغیرہ کے صفحات پر خطوط بھجوائے گئے ۔

آئی آیس آئی
آئی ایس آئی (جسے کچھ لوگ دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسی بھی کہتے ہیں ) کا نا کوئی ایڈریس ، فون نمبر، ای میل یا ویب سائیٹ موجود ہے ۔ کمیشن نے بتایا کہ امریکہ ، برطانیہ وغیرہ کی خفیہ ایجنسیوں کے اپنے باقاعدہ ویب سائیٹس ہیں ۔                                                                   

نتائج / دریافتیں / فائنڈ نگز
اس حصے میں واقعات کا خلاصہ اور اداروں کی کمزور کارکردگی کو بطور خلاصہ بیان کیا گیا ہے ۔ آئی جی پولیس کی نااہلی کو خصوصی طور سے اُجاگر کیا گیا ہے ۔ اداروں میں تعاون کے فقدان ، صوبائی محکمہ صحت کی خامیاں ، صوبائی حکومت کی خراب کارکردگی  کی وجوہات بیان کی گئیں ہیں کہ کیوں یہ ادارے پستی کا شکار ہیں ۔ وفاقی وزارت خارجہ کی نااہلی کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ وزارت سے متعلقہ اداروں کی حالت زار ، وزیر داخلہ کی اپنے کام سے عدم دلچسپی کو دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔                                                                                        

سفارشات
آخر میں اداروں کو کام پر توجہ دینے کے سفارشات دی ہیں ۔ ( کمیشن کی نظر میں قوانین میں کوئی کمی یا خامی نہیں ہے البتہ ) قوانین پر عمل در آمد میں کوتاہی دور کرنے اور عدالتی احکامات پر من و عن عمل درآمد  کی سفارش کی گئی ہے ۔ پنجاب کی طرح باقی صوبوں میں فورنزک لیبارٹریاں قائم کی جائیں ۔ مدارس اور اس کے طلباء کو ایک مربوط نظام کے تحت رجسٹرڈ کیا جائے ۔  شہداء اور زخمیوں کو بلا تاخیر معاوضہ ادا کردیا جائے ۔